صحت

2015 سے 2019، تاریخ کے گرم ترین سال ہیں، اقوام متحدہ

15-2011 کے مقابلے میں سال19-2015 میں0.2 ڈگری سیلسز زیادہ گرم رہا، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں2 فیصد اضافہ ہوا، رپورٹ

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں موسمیاتی بحران سے بچنے کے لیے تمام ترکوششیں ناکامی سے دوچار ہورہی ہیں اور ماضی میں کسی 5 برس میں عالمی طور پر حدت میں اتنا اصافہ نہیں ہوا جتنا 2015 سے 2019 کے درمیانی عرصے میں ہوا۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اگلے ہفتے اقوام متحدہ کے ’کلائمیٹ سمٹ‘ میں 60 ممالک کے سربراہان جمع ہوں گے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکٹری انتونیو گوٹیرس ان سربراہان کو اپنے ممالک میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں کمی لانے پر زور دیں گے۔

مزیدپڑھیں: موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں؟

سائنس ایڈوائزری گروپ رپورٹ کے مصنف نے ’گلوبل وارمنگ کے سدباب کے لیے ہنگامی اور ٹھوس بنیادیوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت‘ پر زور دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 15-2011 کے مقابلے میں سال 19-2015کے دوران 0.2 ڈگری سیلسز زیادہ گرم رہا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 1850 کے بعد سے گزشتہ 4 برس موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ گرم سال رہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے انتونیو گوٹیرس نے کہا تھا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 2018 میں دو فیصد اضافہ ہوا جو ٹن کے اعتبار سے 37 ارب بنتی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

رواں برس مئی میں یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات سے قبل ہزاروں نوجوانوں نے یورپ بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی سے گریٹ بیرئیرریف ’مردہ‘

صرف جرمنی میں فرائیڈیز فار فیوچر گروپ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ 'کلائمیٹ اسٹرائیک کے لیے آج سڑکوں پر 3 لاکھ 20 ہزار افراد جمع ہوئے، جو ہماری اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال ہے'۔

دوسری جانب پیرس میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق فعال 15 ہزار کارکنان نے احتجاج کیا تھا اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں مظاہرین نے برلن شہر کی علامت برانڈنبرگ گیٹ پر مظاہرہ کیا تھا اور نعرے بازی کی تھی ' ہم کیا چاہتے ؟ موسمیاتی انصاف!'۔

خیال رہے کہ نومبر 2017 میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا تھا کہ کاربن کے اخراج کے معاملے میں پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 135 ممالک میں ہوتا ہے جو اس اہم معاملے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہے، مگر ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق پاکستان کا شمار اُن 10 ممالک میں بھی ہونے لگا جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔

مزیدپڑھیں: موسمیاتی تبدیلیاں: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پیسیفک جزائر کا دورہ کریں گے

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار، پانی کی فراہمی اور گرمی کی شدت میں بے پناہ اضافہ سامنے آئے گا۔

اس سے قبل 2015 حکومتی تخمینہ کے مطابق پاکستان کو منفی موسمیاتی تبدیلیوں سے تقریباً 20 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا تھا۔

قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے جمع کرائی گئی تفصیلی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ پاکستان اُن ممالک میں سے ہے جو پچھلے چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوئے، جبکہ موسم کے بڑھتے ہوئے اثرات سے بچنے کے لیے اس کے پاس، تکنیکی اور مالیاتی وسائل کی بھی کمی ہے۔