صحت

گنج پن سے نجات میں مددگار آسان علاج دریافت

یہ عمل ایسے افراد کے لیے تو فائدہ مند ہوگا جن میں گنج پن کا عمل ابتدائی مراحل میں ہو۔

بہت کم چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مردوں کے دل میں گنج پن کے احساس جیسا خوف پیدا کرسکتی ہیں ، مگر بہت جلد اس مسئلے سے نجات کسی ٹوپی پہننے جتنا آسان ہوجائے گا۔

جی ہاں امریکا کی وسکونسن میڈیسین یونیورسٹی نے بالوں کی نشوونما کو دوبارہ متحرک کرنے والی کم لاگت ٹیکنالوجی تیار کرلی ہے۔

محققین کے مطابق یہ بالوں کو دوبارہ اگانے کا ایک عملی حل ہے اور اس ٹیکنالوجی کی تیاری کے لیے ایسی ڈیوائسز کی مدد لی گئی جو جسم سے روزمرہ کی حرکات سے توانائی اکٹھا کرتی ہے۔

بالوں کو اگانے کے عمل کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے یہ ٹیکنالوجی نرم اور کم فریکوئنسی والی الیکٹرک پلسز استعمال کرتی ہے جو بے حرکت بالوں کی جڑوں کو بالوں کو اگانے کے لیے دبارہ حرکت میں لاتی ہے۔

یہ ڈیوائسز بالوں کی جڑوں کو ہموار جلد پر دوبارہ پھوٹنے میں مدد نہیں دیتیں، بلکہ بال بنانے میں مدد دینے والے اسٹرکچر کو دوبارہ متحرک کرتی ہے۔

آسان الفاظ میں یہ عمل ایسے افراد کے لیے تو فائدہ مند ہوگا جن میں گنج پن کا عمل ابتدائی مراحل میں ہو، تاہم اگر کئی برس قبل ہی گنج پن کا شکار ہوچکے ہوں، تو اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہوگا۔

چونکہ ان ڈیوائسز کو پاور پہننے والے کی حرکت پر ملتی ہے تو ان کے لیے بیٹری پیک یا پیچیدہ الیکٹرونکس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، درحقیقت محققین کے مطابق ان کو کسی عام ٹوپی کے نیچے بھی چھپایا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل پروفیسر شوڈونگ وانگ توانائی اکٹھا کرنے والی مخصوص ڈیوائسز کی تیاری اور ڈیزائن کے عالمی سطح پر جانے مانے ماہر ہیں، خصوصاً ایسی ڈیوائسز کے جو لوگوں کو جسمانی وزن میں کمی میں مدد دیتی ہیں۔

بالوں کی دوبارہ نشوونما والی ٹیکنالوجی بھی اسی سے ملتی جلتی ہے جس کے لیے ایسی چھوٹی ڈیوائسز کا استعمال کیا جائے گا جو روزمرہ کی سرگرمیوں سے جمع ہونے والی توانائی کو لوفریکوئنسی برقی پلسز کی شکل میں جلد کو منتقل کریں گی، یہ انتہائی ہلکی برقی تحرک بالوں کی جڑوں کو دوبارہ 'بیدار' کرے گی۔

پروفیسر وانگ کا کہنا تھا کہ برقی تحریک متعدد جسمانی افعال میں مدد دے سکتا ہے، مگر اس سے پہلے ہمارا کام اتنا اچھا نہیں تھا جو بہت چھوٹی ڈیوائسز سے بھی نرم مگر موثر تحرک فراہم کرسکے۔

محققین کے مطابق چونکہ یہ برقی پلسز بہت نرم اور کھوپڑی کی اوپری تہہ کے علاوہ گہرائی میں نہیں جاتیں، تو ان ڈیوائسز کے اب تک کوئی مضر اثرات سامنے نہیں آسکے، جو اس طریقہ کار کو دیگر طریقہ علاج سے بہتر ثابت کرتا ہے، جن میں ڈپریشن، ذہنی بے چینی یا دیگر مسائل کا خطرہ ہوتا ہے۔

چوہوں پر تجربات کے دوران یہ ڈیوائسز گنج پن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے 2 مختلف کمپاﺅنڈز جتنی ہی موثر ثابت ہوئیں۔

پروفیسر وانگ کا کہنا تھا کہ یہ خود متحرک ہونے والا سسٹم ہے جو بہت سادہ اور استعمال میں آسان ہے، اس میں استعمال ہونے والی توانائی بہت کم ہوتی ہے تو نہ ہونے کے برابر سائیڈ ایفیکٹس مرتب ہوتے ہیں۔

محققین نے اس کانسیپٹ کو وسکونسن Alumni ریسرچ فاﺅنڈیشن میں پیٹنٹ کرایا ہے اور انہیں توقع ہے کہ بہت جلد انسانوں پر اس کی آزمائش کی جاسکے گی۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل اے ایس سی نانو میں شائع ہوئے۔