بی جے پی کے نفرت انگیز منصوبے اور خراب ہوتی صورتحال


17 ستمبر کو گجرات میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے انکشاف کیا کہ ان کی حکومت نے 5 اگست کو کشمیر کو یونین علاقہ بلکہ عملی طور پر ایک کولونی بنانے سے متعلق جو فیصلہ کیا اس کی تحریک انہیں ولبھ بھائی پٹیل کے وژن سے حاصل ہوئی۔ یہ انکشاف جتنا زیادہ حیران کن ہے اتنا ہی تاخیر پر مبنی بھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی کشمیر آر ایس ایس کے سیاسی بازو یعنی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ایک نظر نہیں بھاتا تھا اور بالکل اسی طرح بھارت کے ڈپٹی وزیرِاعظم اور وزیرِ داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کی آنکھوں کو بھی یہ چبھتا تھا۔ انہیں کشمیر کے ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ پسند تھے۔ ان کے لکھے 2 خطوط سے ان کا زاویہ نگاہ منکشف ہوجاتا ہے۔
16 جون 1946ء کو اگرچہ کانگریس بظاہر متحدہ ہندوستان سے متعلق کیبنیٹ مشن کے پلان پر کاربند تھی، لیکن پٹیل نے جیا لال کول جلالی نامی ایک کشمیری پنڈت کو خط میں لکھا کہ ’مجھے کشمیر میں موجود آپ کے جیسی چھوٹی برادری کی تکالیف اور مشکلات کا اندازہ ہے۔ اس پریشان کن مسئلے کا باوقار حل نکالنے کی خاطر خود وزیر پنڈت جواہر لال نہرو امن کے پیامبر بن کر وہاں تشریف لا رہے ہیں۔ آخر وہ خود بھی تو ایک ہندو ہیں، ایک کشمیری ہندو۔‘
دفعہ 370 کا خاتمہ دراصل ان 3 مطالبوں میں سے ایک مطالبہ تھا جو 1951ء میں بی جے پی کی آبائی تنظیم جَن سنگھ کے قیام کے وقت کیے گئے تھے۔ دیگر 2 مطالبوں میں سے ایک کا تعلق آیودھیہ سے تھا، جہاں 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو گرایا گیا جبکہ تیسرے مطالبے کا تعلق یکساں سول کوڈ سے تھا، یعنی مسلم پرسنل لا کے خاتمے سے۔ ٹرپل طلاق کے گھناؤنے عمل کو قابلِ سزا جرم ٹھہرانا اسی مقصد کی ایک کڑی ہے۔
اس پوری سیاسی اسکیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی نے ان 3 اہم ایجنڈوں کو مکمل کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور یہ بتایا کہ انہوں نے وہ کامیابیاں حاصل کیں جو بی جے پی کے سابق وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی حاصل نہیں کرسکے تھے۔
تاہم نہرو، اندرا گاندھی اور دیگر بھارتی رہنماؤں کی طرح مودی نے کشمیر کے لوگ جو کشمیر کے حقیقی آقا ہیں، ان کی رائے کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ شیخ عبداللہ نے پایا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں کھڑے۔ انہوں نے ایک ایسے حل کی تلاش کے لیے تحرک لیا جو نہ صرف خود انہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کو بھی قابل قبول ہو۔ نہرو نے انہیں 11 برس قید میں رکھا۔ ان کے بعد آنے والے ترقی اور پیسے کی طاقت کے عوض نہرو کے فرمانبردار رہے۔