’اسٹیبلشمنٹ کے بنائے سیاسی ماحول سے جان چھڑانے کا وقت آگیا‘


1990ء اور 2000ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے زیادہ تر نوجوان یہ کہانیاں سن سن کر بڑے ہوئے ہیں کہ کس طرح ہمارے ملک میں جمہوریت کا نظام ناکام ثابت ہوا، جس کی بڑی وجہ ضیاالحق اور مشرف کی آمریتوں کے درمیان اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) حکومتوں کی مضحکہ خیز حرکتیں تھیں۔
1988ء اور 1999ء کے درمیان دونوں سیاسی جماعتیں 2، 2 مرتبہ اقتدار میں آئیں لیکن حادثاتی طور پر یا پھر عدالتی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چل کر دونوں میں سے کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی اپنی حکومتی مدت پوری نہیں کی۔
جمہوریت کے خلاف یہی وہ پروپیگنڈہ تھا جس نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو عمران خان کا حامی بنا دیا۔ یاد کریں وہ ماضی کے دن جب موجودہ وزیرِاعظم نے پاکستانی نوجوانوں کی خواہشات حقیقت میں بدلنے کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی نظام کو اقربا پروری اور غیر پیداواری انتقامی سیاست سے صاف اور پاک کرنے کے وعدے کیے تھے، جنہیں وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا خاصہ قرار دیتے تھے۔
پھر کم و بیش 15 کروڑ نوجوانوں کا کیا بنا؟ حتیٰ کہ تعلیم یافتہ اور متحرک طبقہ بھی اقتصادی اعتبار سے غیر محفوظ ملازمت یا آمدن کے حالات کا سامان کررہا ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو محفوظ مستقبل کی کہیں کوئی کرن نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی نوید سنائی دیتی ہے۔
اسکول سے باہر موجود غربت کی دلدل میں پھنسے 3 کروڑ بچوں اور جنگ اور ماحولیاتی آفات کے باعث اپنے ہی دیس میں بنے ہوئے پناہ گزین کا تو تذکرہ ہی کیا کرنا۔
اور یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس ان کے لیے کسی بھی نوعیت کا کوئی منصوبہ نہیں۔
باقی دنیا میں جہاں بھی حکومتوں کو کارپوریٹ لابیوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے وہاں نوجوان اور دنیا کے مستقبل کی زیادہ فکر نہیں کی جاتی، تاہم کئی ملکوں میں حقیقی مسائل کسی نہ کسی سطح پر مرکزی دھارے کے سیاسی اور شعوری مباحثے کے دوران اجاگر ہو ہی جاتے ہیں، بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں تو نوجوان معاملات اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔
آج سوئیڈ گریٹا تھنبرگ نامی 15 سالہ بچی سمیت دیگر ٹین ایجرز کی شروع کردہ مہم ایک بار پھر دنیا کے مختلف حصوں میں سڑکوں کا رخ کر رہی ہے جس کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جائے۔ شکر ہے کہ پاکستان میں بھی چند نوجوان اس عمل میں متحرک ہیں اور تربت، پشاور، ٹھٹہ، فیصل آباد اور دیگر علاقوں میں مارچ کریں گے۔
یہ مضمون 20 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔