پاکستان

معاشی سست روی کے باعث موٹرسائیکل کی فروخت میں ملا جلا رجحان

ملک میں بائیک کی مجموعی پیداوار سال 2018 کے مقابلے میں سال 2019 میں 13 فیصد تک کم ہو کر 24 لاکھ 59 ہزار رہی، رپورٹ

کراچی: ملک میں بائیک کی فروخت میں ملا جلا رجحان نظر آیا اور کچھ اسمبلرز مالی سال 2019 کو بہتر طریقے سے گزارنے کے بعد مالی سال 2020 کے پہلے 2 ماہ کے دوران غیر یقینی فروخت کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب کئی مینوفکچررز کے لیے موجودہ مالی سال گزشتہ کی طرح ہی غیر مستحکم رہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ شماریات (پی بی ایس) کے بیان کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی مجموعی بائیک کی پیداوار مالی سال 2019 میں 13 فیصد تک کم ہو کر 24 لاکھ 59 ہزار رہی جو گزشتہ مالی سال 2018 میں 28 لاکھ 25 ہزار یونٹس تھی۔

70 سی سی بائیکس کے شعبے میں 94 فیصد لوکلائزیشن اور بڑے انجن کی طاقت رکھنے والوں میں 50 فیصد سے زائد حصول کے دعووں کے باوجود اسمبلرز نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران صارفین کو کئی مرتبہ قیمتوں میں اضافے کے جھٹکے دیے جبکہ وہ اس سب کا ذمہ دار ڈالر کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے مہنگے درآمدی پارٹس اور خام مال کو قرار دے رہے ہیں کیونکہ جنوری 2018 میں 110 اور اگست 2018 میں 123 روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 158 روپے تک پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں: معاشی سرگرمیاں کم ہونے سے گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی

مجموعی طور پر بائیک کی مارکیٹ میں 70 سی سی بائیکس کے پاس مارکیٹ کا 70 سے 80 فیصد شیئر رہا جبکہ اٹلس ہونڈا لمیٹڈ (اے ایچ ایل) نے اپنے صارفین کو اتنی بڑی تعداد میں نہیں کھویا اور مالی سال 2019 میں اس کی فروخت معمولی سی کم ہو کر 11 لاکھ 14 ہزار یونٹس تک رہی جو مالی سال 18 میں 11 لاکھ 50 ہزار یونٹس تھی۔

تاہم جولائی سے اگست 2019 کے درمیان اس کی فروخت 2018 کے اسی عرصے کے ایک لاکھ 70 ہزار 21 یونٹس کے مقابلے میں ایک لاکھ 60 ہزار 109 یونٹس رہی۔

اسی طرح جولائی-اگست میں سوزوکی اور یاماہا کی فروخت بھی بالترتیب 3 ہزار 738 اور 4 ہزار 282 یونٹس کے بجائے 3 ہزار 162 اور 3 ہزار 805 رہی۔

سوزوکی اور یاماہا نے مالی سال 2019 میں بالترتیب 23 ہزار 352 اور 23 ہزار 610 یونٹس رہی جو اس سے قبل 21 ہزار 724 اور 21 ہزار 810 یونٹس تھی۔

یونائیٹڈ آٹو موٹر سائیکل کی بات کریں تو مالی سال 2019 میں ان کی فروخت 3 لاکھ 64 ہزار 614 یونٹس رہی جو مالی سال 2018 میں 4 لاکھ 5 ہزار 982 یونٹس تھی جبکہ کمپنی مالی سال 2020 کے آغاز میں اپنی فروخت پر واپس نہیں آسکی اور جولائی-اگست میں اس کی فروخت گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 68 ہزار 858 یونٹس کے مقابلے میں 52 ہزار 379 یونٹس رہی۔

پاکستان آٹوموٹو مینوفکچررز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ اسمبلرز کی جانب سے جولائی سے اگست میں فروخت میں بہتری آئی لیکن جولائی سے اگست 2018 کے دوران اس کا حجم اس سال کے کچھ ماہ کے مقابلے میں اب بھی کافی بہتر تھا۔

اس حوالے سے روڈ پرنس موٹر سائیکل کے ڈائریکٹر سہیل عثمان کا کہنا تھا کہ 'گرتی ہوئی فروخت کی وجہ سے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے جنوری سے مجموعی افرادی قوت (مستقل، یومیہ اجرت اور عارضی) میں 10 سے 15 فیصد کمی کی گئی'۔

انہوں نے کہا کہ '25 سے 40 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے افراد نے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں اور یوٹیلٹی بلز کے بڑھنے کے باعث اپنے اخراجات کو کم کردیا'۔

یہی نہیں بلکہ ماہانہ اقساط کی بنیاد پر بائیک خریدنا جو اس 2 ویلرز کی مجموعی فروخت کا 60 فیصد تک بنتا ہے، اس میں بھی بائیک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کمی آئی کیونکہ لوگوں کا وقت پر ادائیگی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

سہیل عثمان کا کہنا تھا کہ اگست میں روڈ پرنس بائیک کی فروخت میں ریکوری 4 ہزار 827 یونٹس سے 11 ہزار 235 یونٹس رہی جبکہ گزشتہ سال ان کی ماہانہ فروخت 16 ہزار یونٹس تھی جو اب 30 فیصد کم ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہونڈا کی نئی 125 سی سی موٹرسائیکل پاکستان میں فروخت کے لیے پیش

اگست کی فروخت کی ریکوری کے باوجود روڈ پرنس کی فروخت میں جولائی سے اگست کے دوران تیزی سے کمی آئی اور اس کے گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 28 ہزار 181 یونٹس کے مقابلے میں 16 ہزار 62 یونٹس فروخت ہوئے۔

مالی سال 19 میں اس مینوفکچرر کی فروخت مالی سال 18 کے 2 لاکھ 19 ہزار 349 یونٹس کے بجائے ایک لاکھ 61 ہزار 231 یونٹس رہی۔

علاوہ ازیں اگر قیمتوں کا جائزہ لیں تو ہونڈا سی ڈی 70 کی قیمت اب 74 ہزار 900 جبکہ سی جی 125 کی قیمت ایک لاکھ 24 ہزار 500 روپے ہے جو اسی سال کے آغاز میں بالترتیب 69 ہزار 500 اور ایک لاکھ 14 ہزار 500 روپے تھی۔

اسی طرح سوزوکی جی ڈی 110 ایس، جی ڈی 150، جی ڈی 150 ایس ای اور جی آر 150 اب بالترتیب ایک لاکھ 66 ہزار، ایک لاکھ 75 ہزار، ایک لاکھ 91 ہزار اور 2 لاکھ 59 ہزار روپے میں فروخت ہورہی جن کی قیمت رواں سال کے اوائل میں بالترتیب ایک لاکھ 55 ہزار، ایک لاکھ 62 ہزار، ایک لاکھ 80 ہزار اور 2 لاکھ 43 ہراز روپے تھی۔