نقطہ نظر

پہلی بار غلطی کرنے والوں کو ’پکے مجرم‘ بننے سے روکنا ہوگا

مہذب معاشرے نہیں چاہتے کہ پہلی بار قانون کو ہاتھ میں لینے والے جیل کے بُرے حالات کے باعث سخت گیر مجرم بن جائیں۔
آئی اے رحمٰن۔

20 کروڑ یا اس سے زائد کی کرپشن پر نیب قانون کے تحت سزا یافتہ افراد کو اے کلاس جیل کے بجائے سی کلاس جیل میں ڈالنے سے متعلق وفاقی حکومت کا فیصلہ کسی بھی کسوٹی پر کھرا نہیں اترے گا۔

اس حوالے سے سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ یوں امتیازی نظام وجود میں آئے گا۔ جہاں نیب مقدمات میں ملزمان و مجرمان سے سی کلاس جیل کے مطابق سلوک روا رکھا جائے گا وہیں دیگر قوانین کے تحت چلنے والے مقدمات میں سزایافتہ افراد یا ملزمان پہلے کی طرح بہتر کلاس کی سہولیات سے استفادہ کرتے رہیں گے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ مقدمات کا سامنا کرنے والوں کے ساتھ اس وقت تک بے گناہ شہری جیسا برتاؤ رکھنا لازمی ہے جب تک کہ وہ گناہ گار ثابت نہیں ہوجاتے، اور ان کے ساتھ مجرموں کی طرح پیش آنا تو بنیادی اصولِ انصاف کے منافی ہے۔

چونکہ بڑی بڑی کرپشن کے الزام میں گرفتار افراد حکومت کے سیاسی مخالفین ہیں، اس لیے یہ اقدام سیاسی انتقامی لڑائی کے آثار کو نمایاں کرتا ہے۔ حکومتی ترجمان کئی موقعوں پر اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے قید و بند کے حالات ناقابلِ برداشت حد تک سخت بنا کر سزا دینا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی معقول ذہن اس قسم کے خیالات کو فرسودہ ذہنیت کا خلل قرار دے کر مسترد کرے گا۔

موجودہ تجویز جیل مینوئل پر نظرثانی کی غیر مربوط کوششوں کے نتیجے میں پیش کی گئی ہے تاہم عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ جیل اصلاحات کے معاملے پر غیر منظم و جانبدارانہ انداز میں مرحلہ وار نہیں بلکہ جامع انداز میں جائزہ لیا جائے۔

بدقسمتی سے ریاستِ پاکستان نے آزادی کے تازہ جذبے سے سرشار ہوکر جس انتقامی انصاف کو اپنایا تھا وہ گزشتہ دہائیوں کے دوران مزید بدتر ہوا ہے۔

کلونیل دور کے ابتدائی مرحلوں کے دوران ہمارے برِصغیر میں عقوبت خانے نما جیل خانے موجود تھے جنہیں ماقبل کلونیل دور میں جاگیردار سرداروں نے قائم کیا تھا۔ پھر کچھ جیلوں میں تشدد کا نشانہ بننے والے سیاسی کارکنان کی جانب سے چلائی جانے والی جیل اصلاحاتی مہم کی مہربانی اور کچھ عالمی برادری کی جانب سے قیدیوں کے حقوق کو انسانی حقوق کے برابر قرار دینے والے آزادی پسند خیالات کو اختیار کیے جانے کی وجہ سے برِصغیر میں بھی ان تصورات کو تسلیم کیا جانے لگا۔

برٹش راج کے 2 اقدام قابلِ ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ انہوں نے 'جرائم پیشہ' قبائل کہلائے جانے والوں کو غیر قانونی سرگرمیاں ترک کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش میں کولونی کے علاقوں میں کھیتی کے لیے زمینیں الاٹ کیں۔ لیکن آزادی کے بعد یہی زمینیں ان سے لے کر طاقتور بیورکریٹس کو دے دی گئیں۔ یوں 'جرائم پیشہ' افراد کو قانون کے پاسدار کسان میں بدلنے کی یہ اسکیم رائیگاں گئی۔

دوسرا قابلِ ذکر اقدام یہ تھا کہ انہوں نے کھلی جیلیں قائم کیں، ان میں سے ایک لاہور کے قریب واقع مناواں کے مقام پر بنائی گئی اور دوسری سندھ کے ضلع بدین میں تعمیر کی گئی۔

ان دونوں جیلوں میں ایک وسیع رقبے پر پھیلی زمین الاٹ کی گئی تاکہ قیدیوں سے کاشتکاری کا کام لیا جائے۔ جس انداز میں اس اسکیم کو تہ و بالا کیا گیا وہ کسی طور پر بھی ملکی تاریخ کے ایک مایوس کن باب سے کم نہیں ہے۔

لاہور میں واقع کوٹ لکھپت جیل بھی کسی حد تک کھلی جیل کی طرز پر ڈیزائن کی گئی تھی۔ تجویز یہ تھی کہ وہاں قیدی قید خانوں سے باہر آسکتے ہوں اور دکانوں سے مشروبات، سگریٹس یا اسنیکس خرید سکیں تاکہ انہیں تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع مل سکے۔ مگر ایسا ہو نہیں پایا۔

بیرکوں میں چھت کے پنکھے لگانے سے لے کر اہلِ خانہ سے ملاقاتوں میں آسانیاں پیدا کرنے تک جیل اصلاحات کے اس پورے عمل کے دوران یہی خیال غالب رہا کہ چاہے بد سے بدتر مجرم کیوں نہ ہو لیکن انسان ہونے کے ناطے ان کا پیدائشی وقار قائم رہنا چاہیے۔

مہذب معاشرے نہیں چاہتے کہ پہلی بار قانون کو ہاتھ میں لینے والے جیل کے بُرے حالات کے باعث سخت گیر مجرم بن جائیں۔ نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ غلط کام کرنے والوں کو یونہی چھوڑ دیا جائے۔

اس کے برعکس ان کی خواہش یہ ہوگی کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کتھارسس catharsis (ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے دبے ہوئے شدید جذبات و احساسات کا کسی صورت میں اظہار کرکے ذہنی سکون، تطہیر اور تجدید حاصل کرتا ہے) کے عمل سے گزریں اور اپنے اذہان کو مجرمانہ خیالات سے پاک کریں۔

پاکستان میں موت کی سزا پانے والے کئی قیدی کارآمد شہریوں میں تبدیل ہوگئے تھے لیکن اس قدر تبدیلی کے باوجود بھی انہیں پھانسی پر ہی لٹکایا گیا۔

افریقہ کے نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نظام میں سیاہ فام افریقیوں کی زندگی یا آزادی کا کوئی احترام نہیں تھا تاہم ویران جزیرے روبن میں واقع جس جیل کے قید خانے میں نیلسن منڈیلا کو رکھا گیا تھا وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔ ان سہولیات میں پلنگ، میز اور ایک ایسی کھڑکی کی سہولت موجود تھی جہاں سے آسمان کو دیکھا جاسکتا تھا، یعنی وہ سبھی سہولیات جو آج حکومتِ پاکستان مخصوص درجے کے قیدیوں کو فراہم کرنا نہیں چاہتی۔

لہٰذا ملک کی جیلوں کو مغلیہ دور کے تہہ خانوں میں تبدیل کرنے کے بجائے جامع جیل اصلاحاتی منصوبے پر کام کرنا چاہیے۔ اس کا پہلا کام قیدیوں کی تعداد میں کمی ہونی چاہیے، اس مقصد کے لیے مقدمات کا سامنا کرنے والے ایسے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو ضمانت پر رہائی دی جائے جو قید میں رکھے جانے کے مستحق ہی نہیں ٹھہرتے۔

اس موضوع پر 18ء-2017ء میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے قومی انسداد دہشتگردی کے ادارے اور (سول سوسائٹی کا ادارے) سی او ڈی ای کے تعاون سے ایک بہت ہی نمایاں تحقیقی کام کیا۔ Addressing Overcrowding in Prisons by Reducing Pre-Conviction Detention in Pakistan کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ تحقیق وفاقی اور صوبائی نظامِ فوجداری انصاف، جیل افسران، عدالتی حکام، بار کونسلز، اعلی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور سول سوسائٹی کے ماہرین کی پیش کردہ تجاویز پر مبنی ہے۔

اس تحقیق کے مطابق یکم اکتوبر 2017ء تک (سابقہ فاٹا کے علاوہ) ملک کی جیلوں میں 53 ہزار 744 قیدیوں کی باضابطہ گنجائش کے بجائے 84 ہزار 287 قیدی مقید ہیں۔ تحقیق جیل کی گنجائش کا حساب لگانے کے طریقہ کار پر سوال کھڑا کرتی ہے، اگر رپورٹ میں بتائے گئے جیل کی گنجائش کے حسابی فارمولے کو اختیار کیا جائے تو اضافی قیدیوں کی شرح اور بھی زیادہ بن جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جیل میں موجود 66 فیصد قیدیوں کے مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔ جیسا کہ سپریم کورٹ بھی یہ معاملہ زیرِ غور لائی ہے کہ جہاں قانونی گنجائش موجود ہے وہاں بھی ضمانت سے انکار کردیا جاتا ہے، اس کے پیچھے دراصل وہ انتقام جوئی کا کلچر کارفرما ہے جو حکام کی راہ داریوں میں غالب ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ضمانت پر رہائی کو زیادہ تر مقدمات میں بنیادی حق کی حیثیت دی جائے۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ غلط کام کرنے والوں کی مجرمانہ شدت میں اضافے اور دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر قیدیوں سے انسان دوستی کے فلسفے کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔

اس دلیل پر انحصار کرنا غلط اور خطرناک ثابت ہوگا کیونکہ اس طرح اس خیال کو تقویت ملے گی کہ ریاست اپنے خیراندیش فرائض ترک کرچکی ہے اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ پُرتشدد اور استحصالی بن چکی ہے۔

ذمہ دار اور جوابدہ گورننس کی راہ پر لوٹنے کے لیے ریاست کو ایک بار پھر عقل و شعور اور اتفاق رائے کے تحت نظامِ حکومت چلانا ہوگا اور عوام بشمول قیدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیے بغیر تشدد اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنا سیکھنا ہوگا۔


یہ مضمون 19 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔