پہلی بار غلطی کرنے والوں کو ’پکے مجرم‘ بننے سے روکنا ہوگا
20 کروڑ یا اس سے زائد کی کرپشن پر نیب قانون کے تحت سزا یافتہ افراد کو اے کلاس جیل کے بجائے سی کلاس جیل میں ڈالنے سے متعلق وفاقی حکومت کا فیصلہ کسی بھی کسوٹی پر کھرا نہیں اترے گا۔
اس حوالے سے سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ یوں امتیازی نظام وجود میں آئے گا۔ جہاں نیب مقدمات میں ملزمان و مجرمان سے سی کلاس جیل کے مطابق سلوک روا رکھا جائے گا وہیں دیگر قوانین کے تحت چلنے والے مقدمات میں سزایافتہ افراد یا ملزمان پہلے کی طرح بہتر کلاس کی سہولیات سے استفادہ کرتے رہیں گے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ مقدمات کا سامنا کرنے والوں کے ساتھ اس وقت تک بے گناہ شہری جیسا برتاؤ رکھنا لازمی ہے جب تک کہ وہ گناہ گار ثابت نہیں ہوجاتے، اور ان کے ساتھ مجرموں کی طرح پیش آنا تو بنیادی اصولِ انصاف کے منافی ہے۔
چونکہ بڑی بڑی کرپشن کے الزام میں گرفتار افراد حکومت کے سیاسی مخالفین ہیں، اس لیے یہ اقدام سیاسی انتقامی لڑائی کے آثار کو نمایاں کرتا ہے۔ حکومتی ترجمان کئی موقعوں پر اپنی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے قید و بند کے حالات ناقابلِ برداشت حد تک سخت بنا کر سزا دینا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی معقول ذہن اس قسم کے خیالات کو فرسودہ ذہنیت کا خلل قرار دے کر مسترد کرے گا۔
بدقسمتی سے ریاستِ پاکستان نے آزادی کے تازہ جذبے سے سرشار ہوکر جس انتقامی انصاف کو اپنایا تھا وہ گزشتہ دہائیوں کے دوران مزید بدتر ہوا ہے۔
کلونیل دور کے ابتدائی مرحلوں کے دوران ہمارے برِصغیر میں عقوبت خانے نما جیل خانے موجود تھے جنہیں ماقبل کلونیل دور میں جاگیردار سرداروں نے قائم کیا تھا۔ پھر کچھ جیلوں میں تشدد کا نشانہ بننے والے سیاسی کارکنان کی جانب سے چلائی جانے والی جیل اصلاحاتی مہم کی مہربانی اور کچھ عالمی برادری کی جانب سے قیدیوں کے حقوق کو انسانی حقوق کے برابر قرار دینے والے آزادی پسند خیالات کو اختیار کیے جانے کی وجہ سے برِصغیر میں بھی ان تصورات کو تسلیم کیا جانے لگا۔
برٹش راج کے 2 اقدام قابلِ ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ انہوں نے 'جرائم پیشہ' قبائل کہلائے جانے والوں کو غیر قانونی سرگرمیاں ترک کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش میں کولونی کے علاقوں میں کھیتی کے لیے زمینیں الاٹ کیں۔ لیکن آزادی کے بعد یہی زمینیں ان سے لے کر طاقتور بیورکریٹس کو دے دی گئیں۔ یوں 'جرائم پیشہ' افراد کو قانون کے پاسدار کسان میں بدلنے کی یہ اسکیم رائیگاں گئی۔
دوسرا قابلِ ذکر اقدام یہ تھا کہ انہوں نے کھلی جیلیں قائم کیں، ان میں سے ایک لاہور کے قریب واقع مناواں کے مقام پر بنائی گئی اور دوسری سندھ کے ضلع بدین میں تعمیر کی گئی۔
ان دونوں جیلوں میں ایک وسیع رقبے پر پھیلی زمین الاٹ کی گئی تاکہ قیدیوں سے کاشتکاری کا کام لیا جائے۔ جس انداز میں اس اسکیم کو تہ و بالا کیا گیا وہ کسی طور پر بھی ملکی تاریخ کے ایک مایوس کن باب سے کم نہیں ہے۔
لاہور میں واقع کوٹ لکھپت جیل بھی کسی حد تک کھلی جیل کی طرز پر ڈیزائن کی گئی تھی۔ تجویز یہ تھی کہ وہاں قیدی قید خانوں سے باہر آسکتے ہوں اور دکانوں سے مشروبات، سگریٹس یا اسنیکس خرید سکیں تاکہ انہیں تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع مل سکے۔ مگر ایسا ہو نہیں پایا۔