عمران خان کشمیر کاز کیلئے بوجھ ہیں، بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے خورشید شاہ اور دیگر اپوزیشن اراکین کی گرفتاری سمیت دیگر حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کشمیر کاز کے لیے بوجھ بن گئے ہیں۔
اسلام آباد میں پارٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ 'عید کے دن جب ہم کشمیر میں عید کی نماز پڑھنے گئے تو اس وقت فریال تالپور کو گرفتار کیا گیا تھا'۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 'ایک مرتبہ پھر جب قوم کے مشکل وقت میں قیادت کی جو ذمہ داری حکومت اور وزیراعظم کی تھی جب وہ نہیں ہورہی تھی تو سینیٹ نے ایک قدم اٹھایا جہاں تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے کشمیر پر بات ہورہی تھی تو اسی وقت شاہ صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تاکہ کشمیر سے توجہ ہٹے'۔
خورشید شاہ کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے یہ اس لیے کیا گیا کہ'ان کی تاریخی ناکامی سے توجہ سے ہٹے اور میڈیا اور عوام کی توجہ ان کی سیاسی مخالفین کو جو سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہے ہیں اس سے توجہ ہٹے، اس لیے ہم زیادہ مذمت کرتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیر ایک ایسا موقف ہے جس کے لیے ہرپاکستانی کا جذبہ ہے کہ وہ اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے جو کرنا پڑے وہ کرے گا، جو لڑائی لڑنا پڑے اس کے لیے تیار ہے اور یہ ایسا موقع تھا کیونکہ ہر مشکل وقت میں قیادت کے لیے ایک موقع پیدا ہوتا ہے'۔
مزید پڑھیں:پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ گرفتار
وزیراعظم کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ ایسا موقع تھا کہ وہ اپنی پارٹی سے بڑھ کر اپنے ملک اور خطے کی قیادت کرتے اور کشمیریوں کی آواز اٹھانے کے لیے قیادت کرتے لیکن آپ اپنے ملک کی قیادت نہیں کرسکتے'۔
بلاول کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ اپنے ملک کی قیادت نہیں کرسکتے ہیں تو باہر جاکر کون سا کاز لڑسکتے ہیں اس لیے ہم جتنی سخت مزاحمت کرسکیں وہ کم ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت عمران خان کا ناجائز، نالائق، نااہل اور کٹھ پتلی وزیراعظم ہونے سے کشمیر کاز کے لیے نقصان ہورہا ہے کیونکہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کشمیر کی جمہوریت بچائے گا اور رائے شماری کرائے گا جب انہوں نے اپنے ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکالا ہے'۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق بچائیں گے جب اپنے ملک میں حقوق کی دھجیاں اڑا رہے ہوں، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان مقبوضہ کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی آواز بنے گا جب وہ اپنے ملک میں تمام مخالفین کو سیاسی قیدی بنا رہا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'خان صاحب جہاں تک ہماری معیشت کی بات ہے تو وہ نہ صرف نالائق اور نااہل ہیں مگر اس موقع پر وہ نہ صرف قیادت کرنے میں ناکام ہوئے بلکہ انہوں نے قومی اتحاد کو پارہ کردیا ہے'۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'عمران خان کشمیر کاز کے لیے بوجھ بن گئے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے آواز اٹھائی ہے اور ہم اپنے پلیٹ فارم اور کوششوں سے بار بار اٹھاتے رہیں گے'۔
بلاول نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ بہتر ہوتا کہ حکومت، عمران خان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز قومی اتحاد کی طرف قدم اٹھاتے، اس وقت ہمیں آپس میں لڑنے کے بجائے ہمیں ایک بن کر کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانا چاہیے تھا جو بدقمستی سے نہیں ہو رہا ہے'۔
'احتجاج کیلئے اپنا لائحہ عمل بنایا ہے'
بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج میں شرکت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے احتجاج کا لائحہ عمل بنایا ہے،شہر اور علاقوں کی نشاندہی کی گئی جہاں احتجاج ہوگا، مہنگائی اور معاشی صورت حال کی خرابی کو بنیاد بنا کر احتجاج کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے نیب کے ذریعے ختم کرایا گیا، اکتوبر میں مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا اور پیپلز پارٹی نے اس کی حمایت کی ہے، ہم مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کرتے ہیں۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ غیرقانونی طریقے سے الیکشن کمشنر کی تعیناتی کی کوشش کی گئی یہ ایک سنگین آئینی خلاف وزری ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ صدر مملکت کی جانب سے الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا فیصلہ آئین کے خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:خورشید شاہ کی گرفتاری، حکومت پر بلاول بھٹو کی شدید تنقید
انہوں نے کہ پیپلز پارٹی کے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مسلسل رابطے ہیں اور بہت جلد ہمارے اجلاس بھی ہوں گے
بلاول نے کہا کہ مشترکہ ایجنڈے میں انتخابی اصلاحات انتہائی اہم نقطہ ہے، ہمیں ماضی کے انتخابات کا جائزہ لینا چاہیے اور اگر دوبارہ انتخابات گزشتہ انتخابات کے ٹرم آف ریفرنس پر ہوئے تو موثر نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کا معاملہ سینیٹ کی طرف سے اٹھانا چاہیے اور پھر قومی اسمبلی میں بھی مسئلہ زیر بحث لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کی قیادت نے تمام اپوزیشن جماعتوں اور ان کے قائدین کے ساتھ مسلسل رابطے رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ’میری ہنگامی اور احتجاجی مہم سندھ سے نکل کر پنجاب میں داخل ہونے والی ہے‘۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’مشترکہ ایجنڈے میں عدالتی اصلاحات کا مطالبہ شامل کیا جائے، میثاق جمہوریت کے تحت آئینی کورٹ، از خود نوٹس، اور 19 ویں ترمیم کے مربوط اصلاحات ضروری ہیں۔
چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ ’پارٹی کی جانب سے پہلے بھی عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اب بھی جاری ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے میڈیا کی آزادی کے خلاف ایک اور قدم اٹھایا اور ’سفاکانہ کورٹس‘ بنانے کا منصوبہ تیار کیا جس کے تحت میڈیا کا احتساب ہوگا اور حکومت سینسرشپ کی کوشش کرے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومتی فیصلے کی سخت مذمت کرتی ہے،س آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے بغیر دیگر حقوق تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔