’کاش میری بیماری بھی بیت المال کی امداد کی طرح قسطوں پر آتی‘
فروری کا مہینہ اور صبح کا وقت تھا۔ شدید درد سے اس کے جسم میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ گلٹیوں سے گردن اس حد تک اکڑ گئی تھی کہ سانس لینے سے بھی تکلیف ہوتی تھی، ایسے میں کینسر ہسپتال سے وکٹوریہ اور پھر بیت المال کے دفتر تک جانے کا خیال ہی روح فرسا تھا لیکن جان بچانے کے لیے ٹیکہ درکار تھا اور ٹیکے کے لیے رقم۔
بہرحال کسی نہ کسی طرح ہمت مجتمع کرکے وہ وکٹوریہ ہسپتال پہنچ گیا۔ درخواست لکھی، مہریں لگوائیں اور پھر بمشکل بیت المال کے دفتر تک خود کو گھسیٹ ہی لیا۔
سارے دن کی دوڑ دھوپ کے بعد اس کا جسم بخار میں پھنک رہا تھا۔ قدم اٹھانا دوبھر تھا۔ ایسے میں جب اسے کہا گیا کہ بھاگ کر محلے کے چند لوگوں اور ناظم کی تصدیق کروا لاؤ تو اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ دھاڑیں مار مار کے رونے لگا، مگر دفتر میں موجود کوئی بھی اس کے آنسوؤں سے نہ پگھلا۔ روزانہ سیکڑوں سائلین کو روتا دیکھتے دیکھتے انسان بے حس ہو ہی جاتا ہے۔
خیر تصدیق کراتے کراتے اسے کئی دن لگ گئے۔ کاغذ مکمل ہوئے تو امید بندھی کہ اب تو امداد مل ہی جائے گی مگر اس امید پر اس وقت گھڑوں اوس پر گئی جب افسر نے اسے بتایا کہ کیس تیار ہوکر ملتان بھیجا جائے گا۔ ملتان سے فائل اسلام آباد جائے گی اور پھر بیت المال کینسر کے علاج کے لیے 8 لاکھ روپے تک کی رقم فراہم کرے گا، جو منظوری کے بعد گورنمنٹ کینسر ہسپتال بہاولپور منتقل کردی جائے گی۔ اس سارے عمل میں وقت لگے گا۔ کتنا؟ یہ بار بار پوچھنے پر بھی کسی نے نہ بتایا۔
اتنا طویل طریقہ کار سن کر اس کا سر چکرا گیا۔ دوسری طرف کینسر ہسپتال کے ڈاکٹر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ جان بچانے کے لیے فوری ٹیکہ لگوانا ہوگا، لیکن ان ڈاکٹرز کو بھلا کون بتائے کہ بیت المال والوں کا نظام کتنا سست ہے۔
اور پھر اپنے تمام جاننے والوں اور دوسرے خیراتی اداروں سے مایوس ہوکر تو وہ بیت المال آیا تھا۔ غریب آدمی کو لاکھوں روپے دیتا کون ہے؟ شوکت خانم کے ڈاکٹر بھی معذرت کرچکے تھے کہ اس کی بیماری کے لیے ہسپتال مفت علاج فراہم نہیں کرتا اور اب بیت المال کے جواب نے بھی اسے نڈہال کردیا۔ گھر آکر وہ چارپائی پر گرگیا۔
ڈیڑھ مرلے کے بوسیدہ مکان میں ہوش اور بے ہوشی کے درمیان لڑھکتے جاوید اختر کے چھوٹے سے کمرے کی در و دیوار سے دکھ اور مایوسی ٹپک ٹپک کر اس کی روح میں سرایت کرنے لگی۔