امن مذاکرات کیلئے 'ہمارے دروازے کھلے ہیں'، طالبان کا امریکا کو پیغام
افغان طالبان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر مستقبل میں امن مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں تو ان کے 'دروازے کھلے ہیں'۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کے مرکزی مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی نے اس پر زور دیا کہ 'افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے'۔
مرکزی مذاکرات کار نے امریکا کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کچھ غلط نہیں کیا۔
امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'انہوں نے ہزاروں طالبان کو ہلاک کردیا لیکن اسی اثنا میں اگر ایک (امریکی) سپاہی مارا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس طرح کا ردعمل ظاہر کریں کیونکہ دونوں جانب سے کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی'۔
مزید پڑھیں: امریکا سے مذاکرات معطل، طالبان وفد روس پہنچ گیا
شیر محمد عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ 'ہماری جانب سے مذاکرات کے لیے دروازے کھلے ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی مذاکرات سے متعلق اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا'۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر معاہدے پر عمل ہوتا تو طالبان اور غیر ملکی افواج کے درمیان جنگ بندی پر عمل درآمد ہوچکا ہوتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالبان اور افغان حکومتی فورسز کے درمیان اس طرح کی کوئی جنگ بندی موجود نہیں۔
شیر محمد عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ انٹرا افغان مذاکرات 23 ستمبر کو شروع ہونے تھے اور اگر معاہدہ طے پاجاتا تو اس میں وسیع تر جنگ بندی سے متعلق معاملات شامل ہوتے۔
دوران انٹرویو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ امن مذاکرات میں مدد کے لیے طالبان نے روس اور چین سے رابطہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ طالبان کے مرکزی مذاکرات کار کا یہ انٹرویو امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے افغان امن مذاکرات معطل کردیے تھے۔
علاوہ ازیں افغان قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ طالبان کے 'دھمکی آمیز ہتھکنڈے' کامیاب نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی
ڈاکٹر حمداللہ محبت نے بی بی سی سے بتایا تھا کہ 'افغانستان میں امن کا واحد راستہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ہے'۔
ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمارے پڑوسی ممالک جو طالبات کی حمایت اور سرپرستی کر رہے ہیں ان سے کھل کر گفتگو ہمارے مذاکرات میں پیچھے نہیں آگے ہونا چاہیے'۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے قبل امریکا اور طالبان دونوں کے درمیان 18 سالہ طویل افغان جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے کافی قریب پہنچ گئے تھے۔
تاہم امریکی صدر نے ان مذاکرات کے معاہدے کو حتمی شکل دینے سے قبل ہی ان کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کی سینئر قیادت اور افغان صدر اشرف غنی سے 8 ستمبر کو کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کردی تھی۔
امریکی صدر نے مذاکرات کی معطلی کا جواز کابل میں طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کو بنایا تھا۔
مزید پڑھیں: انتخابات سے قبل طالبان کے افغانستان میں حملے، 2 دھماکوں میں 48 افراد ہلاک
اگر دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے پر نظر ڈالیں تو اس معطلی کے اعلان سے قبل 3 ستمبر کو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے یہ بتایا تھا کہ معاہدے میں یہ شامل ہے کہ امریکا 20 ہفتوں میں افغانستان سے 5 ہزار 400 فوجیوں کا انخلا کردے گا۔
تاہم ان فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں طالبان کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ افغانستان دوبارہ کبھی بیرونی دہشت گردی کے لیے مسکن نہیں بنے گا۔
یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد سے افغانستان میں امریکی افواج موجود ہیں اور 18 سال سے طویل جنگ جاری ہے، جس کے باعث افغانستان بدامنی کا شکار ہے۔