افسانہ: بندوق موجد کی کہانی

یہ اس شخص کی کہانی ہے جس نے بندوق دوسری دفعہ ایجاد کی تھی۔
یہاں لفظ ’دوسری دفعہ’ وضاحت طلب ہے۔ دراصل جب سیکڑوں برس پہلے بارود ایجاد ہوا تو کچھ عرصے بعد بندوق بھی ایجاد ہوگئی لیکن جس شخص کی کہانی یہاں بیان کی جارہی ہے وہ ایک ایسے دُور دراز علاقے کا مکین تھا جہاں بندوق کے بارے صرف یہ اطلاع پہنچی تھی کہ اب کوئی ایسی شے ایجاد ہوگئی ہے جس سے انسان بہت دُور کھڑا ہوکر بھی اپنے مخالف پر حملہ کرسکتا ہے۔
اس علاقے کے لوگ اس بارے میں سوچتے کہ ایسا بھلا کیسے ممکن ہے؟ وہ قہوہ خانوں میں گھنٹوں اس پر بحث کرتے لیکن انہیں اس بارے میں کچھ سمجھ نہ آتی۔
بندوق سے متعلق ساری باتیں ان سوداگروں نے پہنچائی تھیں جو قریہ قریہ سامان بیچنے جاتے تو شہر شہر کی خبریں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے جاتے۔ انہی کے ذریعے بندوق کے بارے بھی ایسی ٹوٹی پھوٹی باتیں اس علاقے تک بھی پہنچ گئیں تھیں جہاں وہ شخص رہتا تھا جس نے بندوق دوسری دفعہ ایجاد کی۔
اس نے سوچا کہ کاش اس کے بازوؤں میں یکدم ایسی طاقت بھر جائے کہ وہ اپنے پڑوسی کو اٹھا کر قہوہ خانے سے باہر پھینک دے لیکن اسے اپنے کمزور جسم کے بارے خوب معلوم تھا۔ وہ آہستگی سے پنجوں کے بَل اٹھا اور اپنے پڑوسی کو گھورتے ہوئے بغیر کچھ کہے قہوہ خانے سے باہر چلا گیا۔
اس کی بیوی جو اس سے بے حد محبت کرتی تھی، اس کے رات جلد گھر آجانے کی وجہ سے کچھ حیران ہوئی کیونکہ کافی عرصہ ہوا وہ آدھی رات سے پہلے گھر نہیں لوٹتا تھا۔
‘سب خیریت تو ہے؟’، اس کی بیوی نے پوچھا۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور سیدھا چارپائی پر لیٹ کر آسمان کو گُھورنے لگا۔ پھر اگلے کئی روز تک وہ گھر سے نہ نکلا اور نہ بیوی سے کوئی بات کی۔ بس جب بھوک لگتی تو کھانا کھا لیتا اور پھر سیدھا لیٹ کر آسمان کی جانب دیکھنے لگ جاتا۔
دوسری دفعہ بندوق کا موجد ان دنوں سوچتا تھا کہ کیسے وہ اپنے پڑوسی سے بدلہ لے سکتا ہے جب کہ اس کا جسم کمزور ہے۔ کئی بار اُسے خیال آیا کہ وہ اسے دُور کھڑا ہوکر پتھر دے مارے اور وہاں سے بھاگ جائے، لیکن وہ ٹیڑھے پاؤں کی وجہ سے بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ تلوار سے حملہ کرنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی لیکن وہ چاہتا تھا کہ بدلہ لے۔
آخر ایک روز یونہی سوچتے ہوئے اس کے ذہن میں سوداگر کی سنائی بات آئی کہ دنیا کے کسی کونے میں ایک ایسا ہتھیار ایجاد ہوگیا ہے جس سے آدمی بہت فاصلے سے اپنے مخالف پر حملہ کرسکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس کے دل و دماغ سے بھاری بوجھ کم ہوگیا اور اس نے سوچا کہ یہی وہ شے ہے جس کی اسے تلاش ہے، اور اسی کی مدد سے وہ اپنی بے عزتی کا بدلہ چُکا سکتا ہے۔
لیکن اسے سمجھ نہ آتی کہ آخر وہ ہتھیار ہوتا کیسا ہے اور کیسے مخالف پر دُور ہی سے حملہ کیا جاسکتا ہے؟ وہ دن رات یہی سوچتا رہتا۔ پھر ایک دن اسے پتا چلا کہ کسی دُور دراز علاقے سے ایک سوداگر اس کے شہر میں آیا ہے، وہ فوراً اس کے پاس پہنچا اور پوچھا
’جناب! آپ دنیا کے کس کس شہر میں اب تک گھوم چکے ہیں؟’
‘مجھے ان علاقوں کے بارے کچھ مزید جاننا ہے’، اس نے سوداگر سے کہا۔
‘ہاں ہاں ضرور پوچھو کیا پوچھنا ہے؟’
فاصلے سے حملہ کرنے والی بات اُس کے ذہن میں اٹک گئی۔
‘اوہ اچھا! کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ بندوق ہوتی کیسی ہے یعنی اس کی شکل کیسی ہوتی ہے؟’
‘بالکل سیدھی ایسے’، سوداگر نے ہاتھ اور بازو سے اشارہ کیا۔
‘اگر آپ زمین پر بندوق کی شکل بنا کر دِکھا دیں تو بڑی مہربانی ہوگی’، اس نے سوداگر کی منت کی۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔