بلوچستان سے کیمبرج یونیورسٹی تک ایک پاکستانی سائنسدان کا سفر
ابھی بھارت کے چاند کی جانب بھیجے گئے مشن چندریان ٹو کا بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے (آئی ایس آر او) سے رابطہ منقطع ہوئے محض چند دن ہی ہوئے ہیں اور قیاس آرائیوں اور تبصروں کا شور تھما نہیں ہے۔
اگرچہ آئی ایس آر او نے خلائی گاڑی کو چاند کی سطح پر سالم حالت میں ڈھونڈ لیا ہے مگر ان کا ابھی تک اس سے رابطہ بحال نہیں ہوسکا۔ کیا بھارت کا یہ مشن تکمیل کو پہنچ سکے گا؟ عین ممکن ہے کہ ایسا ہو جائے۔ لیکن اس فیلڈ میں پاکستان خود کس مقام پر کھڑا ہے اور کیا پاکستان کا پہلا انسانی مشن خلا میں بھیجنے کا منصوبہ حقیقت کے روپ میں ڈھل سکے گا ؟
ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کے خیال میں ایسا ممکن ہے۔
ڈاکٹر صمد کو کیمبرج یونیورسٹی میں کام کرنے والے پہلے پاکستانی خلائی سائنسدان کا اعزاز حاصل ہے۔
ڈاکٹر صمد سے کوئٹہ میں ہونے والی ایک ملاقات میں مجھے چند سوالات پوچھنے کا موقع ملا جن کا تعلق بلوچستان کی تحصیل کیچھ کے علاقے بلیدہ سے ہے۔ مگر تمام تر مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہو ئے وہ کیمبرج یونیورسٹی میں بحیثیت سیٹلائٹ اور خلائی سائنسدان کیریئر بنانے میں کامیاب رہے۔
ڈاکٹر صمد نے ابتدائی تعلیم کراچی کے علاقے لیاری میں ایک اردو میڈیم اسکول میں حاصل کی، ابتدائی مشکلات کے باوجود انہوں نے پاکستان میں انجینئرنگ کے بہترین ادارے غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ سے گریجویشن مکمل کرتے ہوئے 2 گولڈ میڈلز حاصل کیے اور ان کی یونیورسٹی نے انہیں سال 2009 کے لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے بہترین گریجویٹ انجینئر کے ایوارڈ کے لیئے نامزد بھی کیا۔
پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر صمد نے کیمبرج یونیورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کا آغاز کیا اور بعد میں انہیں اسی یونیورسٹی میں سینئر محقق اور استاد کے طور پر ملازمت دی گئی۔
2016 میں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں گریفین سینٹر میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کا آغاز کیا اور تب سے ان کے شب و روز خلائی سائنس سے متعلق ٹیکنالوجی بنانے میں گزرتے ہیں۔
ان کے کیرئیر میں ایک شاندار موڑ اس وقت آیا جب یورپین اسپیس ایجنسی نے انہیں ایک ایسے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ملازمت دی جو خلا میں بھیجی جانے والی سپیس کرافٹ (خلائی گاڑیوں) سے متعلق تھا۔
ڈاکٹر صمد کی ٹیم کو یہ ا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے زیرو گریویٹی( کشش ثقل کی غیر موجودگی ) میں پہلی دفعہ کاربن کی ایک خاص قسم گریفین پر تجربات کیے۔
ڈاکٹر صمد سے ہونے والی بات چیت کے کچھ اقتباسات میں ذیل میں پیش کر رہی ہوں ۔
بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق ہونے کے باوجود آپ دنیا کی چند بہترین ین یونیورسٹیوں میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ کیا آپ اپنی جدوجہد کی کہانی ہمیں سنانا چاہیں گے؟
میرا بچپن بلیدہ میں گزرا جو تربت کے قریب واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ 80 کے عشرے کے اختتام اور 90 کے اوائل کا دور تھا۔ ہمیں اس علاقے میں جو لڑکوں کا واحد سکول دستیاب تھا، اسے مقامی زبان میں "ٹاٹ اسکول " کہا جاتا ہے جس میں بچے بوریوں سے بنے ٹاٹوں پر بیٹھتے اور تختی پر گھرکے بنائے ہوئے قلم "لوح" سے لکھا کرتے تھے۔اگرچہ ہمیں اسکول میں اردو زبان میں پڑھایا جاتا تھا مگر بدقسمتی سے ہم اردو زبان بولنے سے قاصر تھے۔
میرے والد اپنی زرعی زمینوں پر کام کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے کراچی کے مضافات میں واقع علاقے حب ، بلوچستان کی زمینوں پر کام کا آغاز کیا جس کے بعد ہم کراچی کے علاقے لیاری کے قریب منتقل ہو گئےاور میں نے وہاں ایک اردو میڈیم سکول الکریم میں تعلیم کا آغاز کیا۔
میں جب چھٹی کلاس میں پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ آگے بڑھنے کے لیئے انگریزی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے۔ جس کے بعد میں اپنے والد کے ساتھ کلفٹن میں واقع ایک عیاری سکول میں داخلے کے لیے گیا ۔ مگر چونکہ میرا اب تک کا تعلیمی ریکارڈ شاندار نہ تھا اور میں انگلش بھی نہیں بول سکتا تھا اس لیے پرنسپل نے مجھے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ تم جس فیلڈ میں آگے بڑھنا چاہتے ہو وہ دراصل تمہارے لئے ہے ہی نہیں۔