پاکستان

مریم نواز مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر برقرار، پی ٹی آئی کی درخواست خارج

مریم نواز پارٹی کی قائم مقام صدر نہیں بن سکتیں اور وہ خود کوئی بھی فعال عہدہ قبول نہ کریں، الیکشن کمیشن
| |

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مریم نواز کے مسلم لیگ (ن) میں پارٹی عہدے کے خلاف دائر درخواست کو خارج کردیا اور انہیں پارٹی میں نائب صدر کے لیے اہل قرار دے دیا۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مریم نواز کے پارٹی عہدے کے خلاف دائر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مریم نواز پارٹی کی نائب صدارت کے لیے اہل ہیں، تاہم مریم نواز کو پارٹی کا قائم مقام صدر نہیں بنایا جاسکتا اور وہ خود بھی پارٹی کا کوئی بھی فنگشنل (فعال) عہدہ قبول نہ کریں۔

واضح رہے کہ درخواست میں مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) میں نائب صدر کے عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔

مریم نواز کو عوامی خدمت کیلئے کسی عہدہ کی ضرورت نہیں، ترجمان مسلم لیگ (ن)

دوسری جانب الیکشن کمیشن کے فیصلے پر مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف ای سی پی میں سستی شہرت کے لیے درخواست لے کر گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز کو عوامی خدمت کے لیے کسی عہدے اور سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے مریم نواز کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں مریم نواز نے پیچھے رہ کر صحت و تعلیم کے لیے کام کیا، تاہم موجودہ حکومت اس طرح کی چھوٹی حرکتیں کررہی تھی، جس کا جواب انہیں الیکشن کمیشن سے مل گیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مریم نواز کے پارٹی عہدے کے خلاف درخواست پر دوسری مرتبہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، اس سے قبل یکم اگست کو یہ فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا اور اسے 27 اگست کو سنانے کا کہا گیا تھا۔

تاہم ای سی پی نے غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے اس فیصلے کو موخر کردیا تھا اور دونوں فریقین کے وکلا سے کہا گیا تھا کہ وہ اس میں مدد کریں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں آیا سزا یافتہ شخص کے سیاسی جماعت کے صدر کا عہدے رکھنے پر عائد پابندی کا اطلاق نائب صدر پر بھی ہوتا ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کے پارٹی عہدے سے متعلق ای سی پی کا فیصلہ موخر

اس معاملے پر گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں کمیشن کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی، جہاں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حسن مان نے اعتراض اٹھایا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے ساتھ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 203 کو بھی پڑھنا چاہیے۔

جہانگیر ترین کیس کا اشارہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی کو اسی بنیادیوں پر اپنی پارٹی پوزیشن کھونی پڑی کہ نااہل لیڈر کوئی پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

اس پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا تھا کہ کچھ سیاسی جماعتوں کی سربراہی صدور کرتے ہیں جبکہ دیگر کی چیئرمین یا امیر اور اختیارات رکھنے والے افراد کی اہمیت ہوتی ہے جبکہ نائب صدور کو کوئی اختیارات نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی خاص طور پر پارٹی سربراہان کا ذکر کیا گیا تھا، لہٰذا الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے قانون سازوں کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرے۔

واضح رہے کہ 3 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کے علاوہ مریم نواز کی بھی پارٹی کے نائب صدر کی حیثیت سے منظوری دی تھی۔

بعد ازاں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک مجرم کو پارٹی کا عہدہ دینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا سوچ رہی ہے۔

علاوہ ازیں 9 مئی کو پی ٹی آئی کے قانون سازوں بیرسٹر ملیکہ بخاری، فرخ حبیب، کنول شوزب اور جویریہ ظفر نے ایک درخواست دائر کی ، جس میں کہا گیا کہ مریم نواز کی تقرری خلاف قانون تھی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما کو کسی بھی سیاسی یا عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ریفرنس کے فیصلے میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو سال قید جبکہ مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت

اس کے علاوہ تمام ملزمان 10 سال کے لیے انتخابات لڑنے یا کوئی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے بھی نااہل قرار دیے گئے تھے اور ان برسوں کا آغاز سزا مکمل ہونے کے بعد سے شروع ہوگا۔

تاہم گزشتہ برس 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کا یہ حکم جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس گل حسن اورنگزیب کی جانب سے حتمی فیصلے تک تھا۔

علاوہ ازیں قومی احتساب بیورو نے اس معطلی کو چیلنج کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کردیا تھا۔