پاکستان

گھوٹکی: 'توہین مذہب' پر ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف 3 مقدمات

مشتعل مظاہرین کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295، 147 اور 149 کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، پولیس حکام
|

سندھ کے ضلع گھوٹکی میں مبینہ توہین مذہب کے الزام پر اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچانے، ہنگامہ آرائی کرنے اور علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کے خلاف 3 مقدمات درج کرلیے گئے۔

ایڈیشنل انسکپٹر جنرل (آئی جی) سکھر جمیل احمد کے مطابق تمام مقدمات گھوٹکی کے ایک تھانے میں سرکار کی مدعیت میں درج کیے گئے۔

مشتعل مظاہرین کے خلاف مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295، 147 اور 149 کے تحت درج کیے گئے۔

ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل (اے آئی جی) جمیل احمد کا کہنا تھا کہ ’دفعہ 295 کو اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ مشتعل افراد نے ہنگامہ آرائی کے دوران ہندو برادری کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا'۔

مزید پڑھیں: گھوٹکی: اسکول پرنسپل پر توہین مذہب کا الزام، شہریوں کا احتجاج

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے یہ ایف آئی آر 45 افراد کے خلاف درج کی جس میں 22 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ 23 افراد نامعلوم ہیں۔

علاوہ ازیں سڑک بلاک کرنے پر 150 افراد کے خلاف ایک علیحدہ مقدمہ درج کیا گیا، جس میں 27 افراد کے نام درج کیے گئے ہیں جبکہ 123 افراد نامعلوم ہیں۔

تیسرا مقدمہ توڑ پھوڑ اور املاک کی چوری سے متعلق ہے جو مجموعی طور پر 34 افراد کے خلاف درج کیا گیا، جس میں 23 افراد کو نامزد کیا گیا جبکہ 11 افراد نامعلوم ہیں۔

دوسری جانب پولیس نے ہنگامہ آرائی کے دوران توڑ پھوڑ کا شکار ہونے والے اسکول کی انتظامیہ سے کہا کہ ایسے لوگوں کے خلاف علیحدہ مقدمہ درج کروائیں جنہوں نے عمارت کے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص پر مقدمہ

پولیس نے اسکول انتظامیہ کو کہا کہ اگر وہ درخواست گزار بننے اور کیس کے اندراج میں ہچکچاہٹ کا شکار ہونے پر پولیس حکام کو آگاہ کریں تاکہ ریاست کی مدعیت میں یہ کیس درج کیا جائے۔

مبینہ طور پر توہین مذہب کے مرتکب اسکول پرنسپل سے متعلق سوال کے جواب میں اے آئی جی سکھر کا کہنا تھا کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد انہیں قانونی کارروائی کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ گھوٹکی میں ایک اسکول کے طالب علم نے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے اسکول پرنسپل پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد اسکول کے طالب علم کے والد عبدالعزیز راجپوت نے سندھ پبلک اسکول کے پرنسپل کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ دائر کردیا تھا۔

مبینہ طور پر توہین مذہب کی اطلاع کے بعد پرنسپل کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے جبکہ مظاہرین نے فوری طور پر پرنسپل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کے لیپ ٹاپ، موبائل کا فرانزک آڈٹ کروانے کی استدعا

مظاہرین نے ہڑتال کی کال دے دی جس کے بعد تمام کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند کردیے گئے جبکہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشتعل افراد نے اقلیتی برادری کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا جبکہ اُس اسکول میں بھی توڑ پھوڑ کی جہاں پرنسپل پر مبینہ طور پر توہیب مذہب کا الزام لگایا گیا۔

بعد ازاں یہ مظاہرے گھوٹکی سے نکل کر اطراف کے اضلاع میرپور ماتھیلو اور عادل پور تک پھیل گئے تھے، جہاں مظاہرین نے سڑکوں کو بلاک کردیا۔

سماجی کارکن ستار زنگیجو کے مطابق مشتعل مظاہروں کی وجہ سے ہندو برادری کے افراد اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے مجرم کو سزائے موت کا حکم

علاوہ ازیں پولیس نے صورتحال پر قابو پالیا تھا جبکہ اپنی مدد اور علاقے میں اقلیتی برادری کے تحفظ اور ان کی املاک کے تحفظ کے لیے رینجرز کی اضافی نفری بھی طلب کی گئی تھی۔

ادھر سول سوسائٹی نے ہندو برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے ’امن زندہ باد‘ ریلی کا بھی انعقاد کیا تھا۔

قبل ازیں جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) اور سنی تحریک (ایس ٹی) کے مقامی رہنماؤں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جبکہ اس واقعے کی شفاف انکوائری کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پولیس نے اسکول پرنسپل کو گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔