سابق چیئرمین نادرا دہری شہریت کیس میں بری
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سابق چیئرمین طارق ملک کو دہری شہریت کیس میں بری کردیا۔
وفاقی دارالحکومت کی ماڈل ٹرائل مجسٹریٹ غربی شائستہ خان کنڈی نے طارق ملک کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا۔
مجسٹریٹ شائستہ خان کنڈی نے ایک روز قبل سابق چیئرمین نادرا کی دہری شہریت چھپانے سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔
سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج نے طاق ملک کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
مزید دیکھیں: کراچی: چیئرمین نادرا کے شناختی کارڈ مراکز پر مزید چھاپے
مجسٹریٹ نے 2 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بطور چیئرمین نادرا تعیناتی کے دوران طارق ملک نے اپنی دہری شہریت نہیں چھپائی۔
عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ 11 جولائی کو طارق ملک کا ضمنی بیان ریکارڈ کیا گیا، طارق ملک نے اوورسیز پاکستانیوں کو جاری شناختی کارڈ نائیکوپ پیش کیا۔
طارق ملک نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ نائیکوپ کا نمبر بتانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان کا دہری شہریت چھپانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نادرا نے بھی پیش کردہ نائیکوپ کی تصدیق کی تھی اور اس حوالے سے ادارے کا کہنا تھا کہ نائیکوپ دہری شہریت رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو جاری کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نادرا کے لانڈھی میں واقع دفتر سے 1800 شناختی کارڈ چوری
خیال رہے کہ سابق چیئرمین نادرا کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کرائم سرکل نے 15 مئی 2014 کو مقدمہ درج کیا تھا۔
واضح رہے کہ دہری شہریت چھپانے سے متعلق یہ کیس سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد کی ہدایت پر دائر کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس اور ٹرائل کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت کا شکار تھے، تاہم انہیں ملکی عدالتوں پر بھروسہ تھا اور انہیں اس فیصلے پر اطمینان ہے۔
مزید پڑھیں: نادرا کی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے سے متعلق افواہوں کی تردید
خیال رہے کہ طارق ملک 2008 سے 2014 تک مختلف عہدوں پر تعینات رہے، جن میں چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ بھی شامل ہے۔
سابق چیئرمین نادرا نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سرخ رو ہوئے لیکن پاکستان میں انصاف کے حصول کا عمل بھی ایک سزا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کے قانون میں ان درخواست گزاروں کے لیے سزا کیوں نہیں، جو عدالت میں جھوٹے الزامات عائد کرتے ہیں اور پھر عدالت میں وہ جھوٹے بھی ثابت ہوجاتے ہیں۔