امریکی خاتون رکن کانگریس کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کی مذمت
امریکی کانگریس کی خاتون رکن راشدہ طلیب نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی اقدامات کو ناقابل قبول اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وادی سے مواصلات کی معطلی اور کرفیو کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔
راشدہ طلیب نے ایک بیان میں کہا کہ ‘بھارت بغیر کسی وجہ کے زیرحراست ہزاروں افراد سے قانون کے مطابق برتاؤ کرے اور ادویات، ہسپتالوں سمیت دیگر بنیادی ضروریات تک رسائی یقینی بنائے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی خود مختاری اور حق خودارادیت کو بحال کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کرے’۔
کانگریس کی رکن نے کہا کہ ‘ہم برسوں سے امن اور خودداری سے زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والے لاکھوں کشمیریوں کو کھو نہیں سکتے’۔
مزید پڑھیں:امریکی سینیٹرز کا ٹرمپ کو خط، پاک بھارت تنازع میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ
انہوں نے بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے علاوہ وادی میں مواصلات کے نظام کو معطل کرنے اور کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر پابندیوں کی مذمت کی۔
راشدہ طلیب کا کہنا تھا کہ ‘بھارت کے لیے میرا بڑا احترام ہے اور امریکا کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات ہیں لیکن میں بھارت کی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی، مواصلات پر پابندی عائد کرنے، ادویات کو روکنے، جبر و تشدد کی بڑھتی لہر کی اطلاعات سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر میں دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتی ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ناقابل قبول کارروائیوں نے کشمیریوں کو ان کے انسانی وقار سے محروم کردیا ہے، لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کردیا ہے اور بھارت اور کشمیر میں جمہوریت کو کمزور کردیا ہے’۔
فلسطینی نژاد امریکی قانون ساز کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کو غیر منصفانہ گرفتاری، ریپ، تشدد کا خوف نہیں ہونا چاہیے’۔
بیان میں کانگریس رکن نے کہا کہ میں ریاست مشی گن میں کئی رہائشیوں سے ملاقات کرچکی ہوں کہ جو مقوضہ کشمیر میں اپنے خاندان سے ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے رابطے نہیں کرپائے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘تشدد کی ناقابل فہم صورت حال، ملٹرائزیشن اور قبضہ بدستور جاری ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر روئے ارض میں سب سے زیادہ فوج سے بھرا ہوا خطہ ہے اور بھارت کے حالیہ اقدامات نے مزید عدم استحکام پیدا کردیا ہے جو تشدد کی شدت کو مزید بڑھانے کا باعث بن گئے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘مظاہرین کو روکنے کے لیے پیلٹ گنز اور آنسو گیس کے استعمال کے نتیجے میں بچوں سمیت کئی کشمیری زخمی ہوچکے ہیں اور مزید اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی ادویات تک رسائی بھی ختم کردی ہے اور ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور دواخانوں تک پہنچنے کے راستے بھی مسدود کردیے ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی خاتون رکن کانگریس نے اسرائیل کی ’مشروط اجازت‘ ٹھکرادی
راشدہ طلیب کا کہنا تھا کہ ‘رپورٹس کے مطابق 3 ہزار سے زائد افراد کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرلیا گیا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر جنسی تشدد کے واقعات اور شہریوں کی جبری گمشدگیوں سے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے شدید تحفظات نے جنم لیا ہے’۔
امریکی کانگریس کی رکن نے کہا کہ ‘میں بھارتی حکومت پر زور دیتی ہوں کہ وہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری قبول کرے اور ذمہ دار فریقین کا احتساب کریں’۔
راشدہ طلیب کا کہنا تھا کہ ‘بھارت، پاکستان دونوں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کی بحران کے حوالے سے 2018 اور2019 کی رپورٹ میں دی گئی تجاویز پر عمل کرنا شروع کردیں’۔
واضح رہے کہ راشدہ طلیب امریکی کانگریس کی ان چند خواتین میں شمار ہوتی ہیں جو انسانی حقوق کے حوالے سے کھل کر بات کرتی ہیں اور وہ رواں برس جنوری میں امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔
قبل ازیں امریکا کے نمایاں سینیٹرز اور اراکین کانگریس نے مسئلہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کے مابین دیگر تنازعات کے حل کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تعمیری کردار ادا کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے خط لکھا تھا۔
صدر ٹرمپ کو ارسال کردہ خط میں سینیٹر کرس وین ہولین، ٹوڈ ینگ، بین کارڈین اور لنزے گراہم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کے بعد گرفتار افراد کی رہائی کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔
یاد رہے کہ راشدہ طلیب نے رواں برس اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اہل خانہ سے ملاقات کی مشروط اجازت کو ’جبر‘ قرار دے کر ٹھکرا دیا تھا۔
اسرائیل نے مخالف بیان دینے پر ان راشدہ طلیب کی ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی جس کے بعد یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم کو فروغ نہیں دینے کا وعدہ کریں تو اجازت دی جائے گی۔