دنیا

ایران عالمی جوہری معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرے، یورپی ممالک

تہران 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ سینٹری فیوجز لگا رہا ہے، برطانیہ، فرانس، جرمنی کا مشترکہ اعلامیہ

یورپی طاقتوں نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون کرے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے مذکورہ بیان اس وقت سامنے آیا جب تہران نے دھمکی دی تھی کہ امریکا اور اسرائیل کے غیرضروری دباؤ کے نتیجے میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایران میں سرگرمیوں بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔

مزیدپڑھیں: امریکا ایران کشیدگی، خلیج فارس میں امریکی افواج کی مشقیں

برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف نے مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ ’تہران آئی اے ای اے کے ساتھ مسائل کے تحفظ سمیت تمام امور پر تعاون کرے‘۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’انہیں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تشویش لاحق ہے کہ تہران 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ جدید سینٹری فیوجز لگا رہا ہے‘۔

یورپی ممالک نے خدشہ ظاہر کیا کہ تہران کے مذکورہ اقدام سے جوہری معاہدے کومزید نقصان پہچ سکتا ہے۔

انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ جوہری معاہدے سے بڑھ کر تمام اقدامات واپس لے۔

خیال رہے کہ امریکا اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کا تنازع کئی عرصے سے جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، ایران کشیدگی کے باوجود جنگ کے امکانات مسترد

واشنگٹن کی جانب سے جوہری معاہدہ منسوخ کیے جانے کے بعد تہران پر متعدد اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں، تاہم ایران کو معاہدے کے دو نکات پر تجارتی استثنیٰ حاصل تھا۔

امریکا کے اس فیصلے کے بعد بھی چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ایران کے ساتھ معاہدے متاثر نہیں ہوئے تھے۔

اسی دوران امریکا نے ایران کی پاسداران انقلاب کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔

بعد ازاں امریکا نے تجارتی استثنیٰ میں توسیع سے بھی انکار کردیا۔

ادھر ایران نے تجارتی استثنیٰ نہ ملنے پر معاہدے کے فریقین ممالک کو 2 ماہ کی مہلت دی تھی کہ اگر وہ جوہری معاہدے سے متعلق تنازع حل کرنے میں ناکام ہوئے تو یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردے گا۔

مزیدپڑھیں: ایران کے ساتھ تنازع: امریکا نے خلیج فارس میں پیٹرائٹ میزائل دفاعی نظام بھیج دیا

اس کے علاوہ 18 مئی کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کشیدگی کم کرنے اور ایران کو قائل کرنے کے لیے یورپی حکام سے بھی بات چیت کی، یہ صورتحال امریکی خفیہ اداروں کی ان اطلاعات کے بعد سامنے آئی جس میں بتایا گیا تھا کہ خلیج فارس میں ایران کے پاس میزائل سے لیس چھوٹی کشتیاں موجود ہیں۔

اس اطلاع سے اس بات کو تقویت ملی تھی کہ تہران امریکا یا اس کے اتحادیوں کے فوجی دستوں اور اثاثوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ ایران، امریکی صدر کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ’امریکی جارحیت ناقابلِ قبول ہے‘۔