نقطہ نظر

سانحہ بلدیہ فیکٹری: 7 سال بعد زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں

اس سانحے نے ثابت کیا کہ سالانہ 13ارب ڈالر کمانے والے سب سے بڑے برآمدی شعبے میں مزدور کس قدر برے حالات میں کام کررہےہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔

یہ 11 ستمبر 2012ء کی بات ہے جب کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع ایک گارمنٹ فیکٹری میں پھنسے 260 مزدور آگ میں جھلس کر یا دم گھٹنے کے باعث ہلاک ہوگئے تھے۔ آتشزدگی اس قدر شدید تھی کہ کئی لاشوں کی شناخت کرنا دشوار ہوگیا تھا اور 17 لاشوں کو بغیر شناخت کیے ہی دفنانا پڑگیا۔

اگر صنعتی شعبے کی بات کی جائے تو پاکستانی تاریخ میں یہ سب سے خطرناک اور جان لیو حادثہ مانا جاتا ہے۔ 24 خواتین سمیت مرنے والوں کی اکثریت کی عمر 30 برس سے بھی کم تھی۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ان غریب لوگوں کی تھی جو ملک کے مختلف حصوں سے یہاں روزی کمانے کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔

علی انٹرپرائزز فیکٹری میں لگنے والی آگ نے یہ آشکار کردیا کہ پاکستان کو سالانہ 13 ارب ڈالر کما کر دینے والے پاکستان کے سب سے بڑے برآمدی شعبے یعنی گارمنٹ اور ٹیکسٹائل صعنت میں مزدور کس قدر بُرے حالات میں کام کر رہے ہیں۔ اس سانحے نے نہ صرف قومی سطح کی غفلت بلکہ عالمی خریداروں کی بے حسی کو بھی ظاہر کیا۔

1500 مزدوروں سے کام لینے والی یہ فیکٹری اپنی مجموعی پیداوار کا 80 فیصد حصہ جرمنی سے تعلق رکھنے والی ٹیسکٹائل ڈسکاؤنٹ چَین (KiK) کو فراہم کرتی تھی۔ صحت اور حفاظت کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے لیبر انسپیکٹر کے دورے تو دُور کی بات یہ فیکٹری تو سندھ کے محکمہ لیبر سے بھی رجسٹرڈ نہیں تھی۔

آتشزدگی کی وجہ کو لے کر آج بھی مختلف آرا سننے کو ملتی ہیں۔ دوسری طرف عدالت میں چل رہے فوجداری مقدمے کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ تاہم تمام رپورٹس میں اس بات پر اتفاق رائے پائی جاتی ہے کہ اگر دروازے بند نہ ہوتے اور کھڑکیاں لوہے کی جعلی سے بند نہ ہوتیں تو اس قدر بڑے جانی نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔ فیکٹری کی عمارت میں نہ تو فائر الارم کا کوئی مناسب انتظام موجود تھا اور نہ ہی ہنگامی حالات میں عمارت سے باہر نکلنے کے راستے تھے۔

مزدوروں سے جڑے اداروں نے اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر جرمن خریدار کو ڈھونڈ ہی نکالا۔ 4 برس کے مہم و مذاکراتی عمل کے بعد (KiK) متاثرین کے گھر والوں کو طویل المدت بنیادوں پر 51 لاکھ 50 ہزار ڈالر زرِ تلافی کے طور پر دینے پر راضی ہوگئی ہے۔

2016ء میں ہونے والا یہ معاہدہ عدالت سے باہر کسی بھی انفرادی خریدار کے ساتھ صنعتی شعبے میں حادثات کی تاریخ کا سب سے بڑا تصفیہ ہے۔

اس سے قبل یہی کمپنی متاثرین کے گھر والوں کی فوری امداد کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے ذریعے 10 لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کرچکی تھی۔ طویل المدت بنیادوں پر ادا کی جانے والی زرِ تلافی کی رقم 2017ء سے متاثرین کے ورثا اور زندہ بچ جانے والوں کو بطور ماہانہ پینشن فراہم کی جا رہی ہے۔ اس اسکیم پر سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کی مدد سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے جبکہ اس کی نگرانی مختلف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے۔

اس قسم کے صنعتی حادثات میں دی جانے والی زر تلافی کی صورت اس اسکیم نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر مثال قائم کی ہے۔ اس اسکیم کا عمل اور حساب کتاب کنوینشن 121 کے تحت عالمی ادارہ لیبر کے تمام معیارات کے مطابق انجام دیا جاتا ہے۔

حادثے کے بعد متاثرین کے ورثا کو دیے جانے والے سرکاری اور نجی عطیات میں سب سے زیادہ رقم پینشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔ متاثرین کے گھر والے مجموعی زر تلافی کی صورت میں اوسطاً 15 لاکھ روپے کی رقم وصول کرتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی تو دیکھیے کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے کام کی جگہوں پر صحت و سیفٹی کے حالات کو بہتر بنانے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔

حکومتِ سندھ نے گزشتہ ماہ یعنی اگست 2019 میں سندھ اوکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایکٹ 2017ء کے تحت اوکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کونسل کو قائم کیا ہے۔ تاہم زمینی صورتحال تقریباً ویسی ہی ہے جیسی 7 سال پہلے تھی۔

صوبے کے ایک کروڑ 40 لاکھ محنت کشوں کا خیال رکھنے کے لیے صرف 100 انسپیکٹرز کا حامل لیبر انسپیکشن سسٹم بدستور خرابیوں کا شکار ہے۔ کرپشن اور نااہلی کے الزامات کی وجہ سے بدنام لیبر انسپیکشن کے بگڑے نظام میں جامع تبدیلیوں کی کوششوں کے حوالے سے آن ریکارڈ کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

سندھ میں نصف سے زائد فیکٹریاں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ ایک ایسا صوبہ جس کے پاس ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز ہے وہاں لیبر محکمہ محض 4 لاکھ 50 ہزار مزدوروں کے ساتھ 9 ہزار 800 فیکٹریوں کو رجسٹر کرسکا ہے۔ رجسٹرڈ فیکٹریوں کا نہ مناسب انداز میں معائنہ کیا جاتا اور نہ ہی یہ تسلّی کی جاتی ہے کہ آیا وہ مزدوروں کے معیارات پر پورا اتر بھی رہی ہیں یا نہیں۔

ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کلین کلوتھز کیمپین کے نام سے تاجر یونین کا عالمی نیٹ ورک اور غیر سرکاری ادارے مل کر ٹیکسٹائل کے شعبے میں کام کرنے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ مہم کاروں کے مطابق بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے بعد پاکستان میں غیر محفوظ حالات میں کام کرنے کی وجہ سے 100 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے چھوٹے واقعات پیش آئے جن کے نتیجے غریب مزدور زخمی ہوئے۔

لیبر فورس سروے برائے 2018ء-2017ء کے مطابق پاکستان میں ہر 25 میں سے ایک مزدور کو اپنے پیشہ ورانہ ماحول کے باعث صحت اور سلامتی سے جڑے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ تعداد خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت بہت زیادہ بنتی ہے۔

سانحے کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر متاثرین کو انصاف فراہم کیا جاسکتا ہے مگر فراہمئ انصاف کا عمل عدالتی نظام کی خامیوں کی وجہ سے بہت زیادہ سست روی کا شکار ہے۔

ابتدائی طور پر مالکان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا، بعدازاں ان پر غفلت کے الزامات عائد کردیے گئے۔ پھر ایک سے زائد جے آئی ٹیاں بھی تشکیل دی گئیں اور مبیّنہ مجرمان کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔ تاہم اب تک کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی، یوں متاثرین کے ورثا آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

بلدیہ فیکٹری کے واقعے کو 7 برس بیت گئے لیکن ہمیں اس واقعے سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ مقدمات کی تیز ترین سماعت کے ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات میں زبردست اصلاحات لانی ہوں گی تاکہ مستقبل میں اس قسم کے سانحات سے بچا جاسکے اور مجرمانہ غفلت کے باعث لوگ اپنی زندگیاں نہ کھوئیں۔


یہ مضمون 12 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ذوالفقار شاہ

لکھاری پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔