بات سنیے! آپ کے پھیلائے کوڑے کو اٹھانا کسی کمتر کا فریضہ نہیں
کوڑا کرکٹ، چاہے ہمارے گھر کے باہر سڑکوں پر پڑا ہو یا پھر کسی سیاحتی مقامات پر بکھرا ہو، ہمیشہ ہی آنکھوں کو بُرا لگتا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چاہے پہاڑوں پر واقع دیوسائی کا قومی پارک ہو، کراچی کا ہاکس بے ساحلِ سمندر ہو یا پھر پاکستان میں کہیں بھی اے ٹی ایم کا کمرہ ہو، وہاں اکثر و بیشتر آپ پھیلا ہوا کچرا پائیں گے اور اس کے قریب رکھا ہوا کوڑا دان یا تو مکمل طور پر خالی یا آدھا بھرا ہوگا، یعنی یہ تو واضح ہوگیا کہ مسئلے کا تعلق کوڑے دانوں کی تنصیب تک محدود نہیں۔ کوڑا پھینکنا ہماری معاشرتی روایات کا حصہ بن چکا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کی طرف پہلا قدم اٹھاتے ہوئے وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی نے 14 اگست سے اسلام آباد میں پلاسٹک تھیلیوں کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ امید اور خیال یہی ہے کہ اس قابلِ تعریف فیصلے کے بعد کوڑے کے پھیلاؤ اور اس کے صحت اور ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔
تاہم صورتحال جس قدر خراب ہوچکی ہے اس میں مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آخر ہم اتنا زیادہ کوڑا کیوں پیدا کرتے ہیں اور ہم مسئلے کی اصل جڑ کو کس طرح ختم کرسکتے ہیں؟
مزید پڑھیے: کچرا کم کرنے اور اسے دوبارہ استعمال کرنے کے چند مفید مشورے
ہر گزرتے سال کے ساتھ پاکستان کے سیاحتی مقامات پر سیاحوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے، جو اپنے پیچھے کوڑے کرکٹ کا ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں، تاہم اگر ان مقامات پر آنے والے افراد اپنے طور پر کوشش کریں تو اس گندگی سے بچا جاسکتا ہے۔