پاکستان

جعلی اکاؤنٹس کیس: پلی بارگین کی درخواست واپس لینے پر ملزم جیل منتقل

ملزم کی پلی بارگین کی رقم 10 کروڑ روپے سے زائد ہے، نیب، اتنی رقم ادا نہیں کرسکتا، ملزم کا عدالت میں بیان
|

احتساب عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں پلی بارگین کی درخواست واپس لینے پر نامزد ملزم کو 20 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، جہاں قومی احتساب بیورو (نیب) نے عدالتی ریمانڈ مکمل ہونے پر ملزم خورشید انور جمالی کو پیش کیا۔

مالی بے ضابطگیوں اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر مئی میں گرفتار کیے گئے ملزم نے عدالت میں موقف اپنایا کہ وہ پلی بارگین کی رقم زائد ہونے کی وجہ سے اسے ادا نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ ان کا کیس جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس سے تعلق رکھتا ہے، جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سمٹ بینک کے سابق چیئرمین حسین لوائی اور دیگر بڑے نام نامزد ہیں۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کو جیل میں سہولیات فراہم کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اس پر نیب پراسیکیورٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم خورشید انور جمالی 5 کروڑ 70 لاکھ روپے جمع کروانے پر راضی تھے لیکن پلی بارگین کی رقم 10 کروڑ روپے سے زائد تھی۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم کو 20 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

علاوہ ازیں اسی معاملے سے متعلق ایک اور کیس میں نامزد سندھ بینک کے ایگزیکٹو نائب صدر ندیم الطاف نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا اور ملزمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست دائر کردی۔

اپنے بیان میں ندیم الطاف کا کہنا تھا کہ 'دباؤ ڈال کر قرض منظور کروائے گئے'۔

ندیم الطاف نے بتایا کہ 2016 میں ایک اور ملزم بلال شیخ کے ہمراہ وہ حسین لوائی سے ملے، جس میں سمٹ بینک اور اس کے سابق چیئرمین کو فائدہ پہنچانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

شریک ملزم کے مطابق سندھ بینک کی جانب سے حسین لوائی کی فرنٹ کمپنی کو غیر قانونی طور پر قرض فراہم کیے گئے، بعد ازاں یہ رقم نجی بینک میں جمع کروائی گئی۔

بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ حسین لوائی کی کمپنیز لیے گئے قرض کی ادائیگی میں ناکام ہوئی لیکن انہیں ڈیفالٹڈ قرار دینے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ سندھ بینک سے مزید قرضے فراہم کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ بینک کے سابق صدر اور موجودہ ڈائریکٹر بلال شیخ اور موجودہ صدر طارق احسان اس اسکیم میں ملوث تھے۔

بعد ازاں عدالت نے ندیم الطاف کی وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

یاد رہے کہ احتساب کے قومی ادارے نے انہیں جولائی میں حراست میں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری کو جیل میں فراہم کردہ سہولیات کی تفصیلات طلب

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں ملوث 7 ملزمان کو 10 ارب 60 کروڑ روپے کی پلی بارگین کے تحت رہا کرنے سے متعلق ڈیل کی منظوری دی تھی۔

اس سے قبل جعلی اکاونٹ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر احتساب عدالت نے پاکستان میں ایک نجی بینک کے مالک ناصر عبداللہ لوتاہ کے وارنٹ گرفتاری واپس لے لیے تھے۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: یو اے ای کی کاروباری شخصیت وعدہ معاف گواہ بن گئی

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب نے ساڑھے 10 ارب روپے کی پلی بارگین منظور کرلی

اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔

احتساب عدالت کے رجسڑار نے بینکنگ کورٹ سے منتقل کئے جانے والے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد اسے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کیا تھا۔

مذکورہ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری میں مسلسل توسیع ہوتی رہی تاہم آصف زرداری کو 10 جون جبکہ ان کی بہن کو 14 جون کو گرفتار کرلیا تھا جنہین بالترتیب 15 اگست اور 12 اگست کو ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔