نقطہ نظر

عبدالقادر کا مقام بہت اونچا ہے

کئی پاکستانی لیگ اسپنرز انگلش ٹیم کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں مگر قادر پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے حقیقی نقصان پہنچایا۔

جب عبدالقادر نے اپنے کیریئر کی آخری گیند پھینکی تھی تب تو میری پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔

90 کی دہائی میں جنم پانے والے بچے کے طور پر مجھے یہ بخوبی معلوم ہے کہ ان کے شاگرد مشتاق احمد کن صلاحیتوں کے حامل ہیں اور بالخصوص انگلینڈ کے میدانوں میں ان کے کھیلنے کا انداز کیسا تھا۔

مجھے یہ معلوم ہے کہ دنیا کے ہر میدان میں شین وارن کیسا کھیلتے ہیں۔ انیل کمبلے کا الگ انداز دیکھا، دانش کنیریا کا زمانہ آیا اور گزرا، یاسر شاہ نے زندگی میں نئی روح پھونکی اور اب تو سمجھ لیجیے کہ میں شاداب خان کے لیے جیتا ہوں۔

مگر عبدالقادر کو کبھی کھیلتا ہوا نہیں دیکھ پایا۔

انہیں نہ دیکھ پانے کا دکھ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے کہ جب کوئی مڑے ہوئے ہاتھوں سے گیند باز کرتا ہے اور پھر بڑی عمر کے انکلز فوراً اس کا موازنہ عبدالقادر کی باؤلنگ سے کرنے لگتے ہیں۔

جب بھی اسپن باؤلنگ کرنے والے ٹی وی اسکرین پر جلوہ گر ہوتے ہیں تو اکثر مجھے یہ جملے سننے کو ملتے کہ

جب کبھی لیگ اسپنر باؤلنگ کے لیے آتا تو عبدالقادر کا ذکر ضرور چھڑ جاتا۔ قادر ایسا تھا، قادر ویسا تھا، یہ تھا وہ تھا، اور نہ جانے کیا کیا، اور مجھے کوئی اندازہ نہ ہوتا۔ اگر اندازہ کرنا بھی ہوتا تو یوٹیوب پر دستیاب دانے دار ویڈیوز سے ذہن میں خاکہ بنایا جاتا اور ان کی کارکردگی کے شماریات کا سہارا لیا جاتا، واضح رہے کہ شماریات ٹیلنٹ کو اعداد کا پیرہن تو پہنا دیتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کھلاڑیوں کی ناقابلِ شمار و بیان صلاحیتیں بھی انہی اعداد کی محتاج ہوجاتی ہیں۔

چنانچہ اپنی تحقیق اور گزرے وقتوں کی کہانیوں کے اوراق پلٹاتے وقت تھوڑا گہرائی میں اترنا پڑا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ قادر کو حاصل اس باوقار ساکھ کے پیچھے ماجرہ کیا ہے۔ ایک شخص جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا اور جو ہمارے درمیان نہیں ہے، اس تحریر کو اس شخص کے نام ایک حقیر سی خراج تحسین میں بدلے بغیر آئیے قادر کے کیریئر کا معروضی جائزہ لیتے ہیں۔

سابق کپتان عمران خان اور عبدالقادر— ڈان/فائل

22 برس کی عمر میں عبدالقادر پاکستانی شرٹ پہنے جب پہلی مرتبہ کرکٹ میدان میں اترے تو بہت ہی سطحی کھیل پیش کیا۔ لاہور میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں انہوں نے 82 رنز دے کر محض ایک وکٹ حاصل کی اور وہ بھی دسویں نمبر کے کھلاڑی باب ولس کی۔ تاہم خود کو مثالی کھلاڑی بنانے میں انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ حیدرآباد میں کھیلے جانے والے اپنے اگلے ہی میچ میں انہوں نے 6 وکٹیں حاصل کیں۔

قادر کی حقیقی معنوں میں آمد ہوچکی تھی۔

کئی پاکستانی لیگ اسپنرز انگلش ٹیم کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں مگر قادر وہ پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے انہیں حقیقی نقصان پہنچایا۔ ان کے کیریئر کو عروج بھی انگلینڈ کے خلاف ٹھیک ایک دہائی بعد اس وقت ملا جب انہوں نے سوائے ڈیوڈ کیپل کے تمام کھلاڑیوں کو پویلین بھیج دیا تھا۔ انہوں نے یقیناً توصیف احمد سے کہا ہوگا کہ کیوں؟ آخر کیوں یہ وکٹ آپ نے لی؟

تاہم قادر کی اپنی ابھار سے زیادہ ان کی کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو ہماری رہنمائی میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ دراصل 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں فاسٹ باؤلرز کا راج تھا۔ جارحانہ باؤلنگ کے ظالمانہ جوہر دکھانے کا فن ایک طویل عرصے تک مؤثر اور مقبول رہا، ایک طرح سے یہ غیر نوشتہ اصول بن چکا تھا کہ میچ صرف تیز گیند باز ہی جتواسکتے ہیں۔

غیر معمولی لیگ اسپن کی صلاحیتوں کا حامل کوئی نمایاں کھلاڑی برسوں تک دنیائے کرکٹ نے نہیں دیکھا تھا، اور یوں لیگ اسپن دم توڑ رہی تھی۔ لیگ اسپن جدید باسٹک بال میں روایتی سینٹر کے دم توڑتے رجحان کی طرح کرکٹ سے ختم ہونے جا رہی تھی۔

اگرچہ چند کھلاڑیوں نے کلائی کی مدد سے اپنا جادو جگانے کی کوشش کی مگر وہ غیر مؤثر رہے (اور میچ ونرز تو قطعی طور پر ثابت نہیں ہوئے)۔

عبدالقادر کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے اس رجحان کا رخ موڑ دیا۔

اگلے 13 برسوں تک وہ ان کھلاڑیوں کے یونٹ کے رہنما بنے جو نئی گیند کے باؤلرز کے بعد حرکت میں آتے، ساتھ ہی وہ اپنی منفرد گیند بازی سے دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتے اور بلے بازوں کو اپنی گوگلی کی چالوں اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے خوب پھنساتے۔

ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار سنجے منجریکر نے کہا کہ ’قادر کے بعد آنے والے ہر پاکستانی لیگ اسپنر میں کہیں نہ کہیں قادر کی جھلک نظر آتی ہے۔‘

1977 میں عبدالقادر نیاز اسٹیڈیم میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں باؤلنگ کروارہے ہیں— تصویر بشکریہ دی کرکٹر پاکستان

مگر قادر کے سب سے نمایاں شاگرد مشتاق احمد تھے، بلکہ یوں کہیے کہ وہ عبدالقادر کو پیش کردہ چلتی پھرتی خراج تحسین کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ماضی میں اس وقت کیا خوب ستم ظریفی ہوئی کہ جب پاکستانی ٹیم میں شاگرد نے اپنے 35 سالہ استاد کو مقبولیت میں آہستہ آہستہ پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کے کیریئر کے آخری 2 برسوں کی شماریات میں گراوٹ تو دیکھنے کو ملتی ہے لیکن ماضی کا جائزہ لینے پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ 1998ء تک کرکٹ کھیلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔

جب قومی ٹیم کو عبدالقادر کی ضرورت نہیں رہی تو انہوں نے لیگ اسپن برادری کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام شروع کردیا، انہوں نے اپنی باؤلنگ تکنیک دیگر باؤلرز تک پہنچانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے ہی 1994ء میں نوجوان شین وارن کو اپنی طرح گوگلی کرنا سکھائی تھی۔

اپنا آخری میچ کھیلنے کے دہائیوں بعد بھی ان سے متاثر ہوکر کئی لیگ اسپنر کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں، جس کی تازہ مثال عمران طاہر ہیں، انہیں اگر عبدالقادر کا اوتار کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا۔

اگرچہ عبدالقادر کے اعداد متاثر کن ہونے کے باوجود شین وارن، متھیا مرلی دھرن، انیل کمبلے وغیرہ جتنے اعلیٰ درجے کے نہیں ہیں لیکن یاد رکھیں کہ ان دنوں کرکٹ اس قدر دیوانہ وار اور اتنی زیادہ بھی نہیں کھیلی جاتی تھی جتنی کہ موجودہ دور میں کھیلی جاتی ہے۔

مثلاً، قادر کے پورے کیرئیر میں صرف ایک سال ایسا آیا ہے جب انہوں نے 10 ٹیسٹ کھیلے تھے، جبکہ بھارت کے ویرات کوہلی کے 9 سالہ کیریئر میں 4 برس ایسے گزرے ہیں جن میں انہوں نے مذکورہ تعداد سے دگنے میچز کھیلے۔

جب کسی کھلاڑی کی صلاحیتوں کا اندازہ شماریات میں نہ جھلکتا ہو تو پھر آپ کو اس کی لیگیسی کا اندازہ اس کے اثر اور ان سے جڑی غیر معمولی باتوں سے کرنا ہوتا ہے، اور اگر اب تک آنے والے تمام اسپن گیند بازوں کی بات کی جائے تو قادر کا مقام بہت اونچا ہے۔


انگلش میں پڑھیں.

کمیل زیدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔