پاکستان میں پڑھا لکھا کون ہے؟


تعلیم کیا ہے؟ یہ ہم اس وقت تک نہیں سمجھ پائیں گے جب تک علم، ہنر اور سند جیسے اس کے مختلف پہلوؤں کے درمیان فرق کو سمجھ نہیں لیتے۔
یہ پہلو ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس مثال پر غور کرنا پڑے گا۔ میں اپنی گاڑی مرمت کروانے ایک ’چھوٹے‘ کے پاس لے گیا جو پہلے ایک ‘استاد’ کے ہاں شاگرد تھا اور اس نے اسی سے ہی اس کام میں مہارت حاصل کی۔ چھوٹے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جدید شہری طور طریقوں سے بھی بخوبی واقف ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اسے تعلیم یافتہ تصور نہیں کرتے۔ آخر کیوں؟
آج ’تعلیم یافتہ‘ شخص ہونے کا تصور ابہام کا شکار بن چکا ہے جبکہ اسے سمجھنے کے طریقے میں بھی کافی تضاد پایا جاتا ہے۔
روایتی خیال کے مطابق ہر وہ شخص پڑھا لکھا ہے جو علم رکھتا ہے اور اس کا علم اس شخص کے ایسے مضامین پر ذہانت بھری گفتگو کا حصہ بنتے وقت ظاہر ہو رہا ہوتا ہے جن کا کسی پروفیشنل مہارت یا پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنا چاہتا ہے تو اس کا مطالعہ بہتر ہونا چاہیے اور وہ کم از کم ایک زبان میں روانی رکھتا ہو جس میں وہ اپنے خیالات کو باربط انداز میں الفاظ کی صورت دے کر ان کا اظہار کرسکے۔ اس کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد کو مہذب و شائستہ کہا جاتا تھا، یعنی علم کا حصول پورا پورا دھیان رکھتے ہوئے اگائی گئی کھیتی جیسا عمل ہے جس میں کڑی محنت اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
چھوٹا انتہائی ہنرمند ہونے کے باوجود بھی محدود علم کی وجہ سے غیر تعلیم یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں معاملہ تھوڑا ٹیڑھا نظر آتا ہے۔
آج کے پاکستان میں چھوٹے کو کئی دیگر افراد کا متبادل تصور کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹا گاڑیوں کی مرمت کرنے والا ٹھیک ویسا ہی ایک باہنر مکینک ہے، جیسے انسانی جسم، کمپیوٹر اور کمپنی لیجرز وغیرہ کے دیگر مکینکس پائے جاتے ہیں۔
مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کے مضامین نے جب سے ان مضامین کی جگہ لی جو سوچنے کی حوصلہ افزائی پیدا کرتے تھے تب سے ہمارے کالجوں نے ایسے لوگ پیدا کرنا شروع کردیے ہیں جو معقول حد تک باصلاحیت تو ہیں مگر روایتی فہم میں کچھ اچھے تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ کئی ڈاکٹرز، انجینئرز، اکاؤنٹنٹ اور فوجی اہلکار اسی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔