بھارت: مقتول مسلمان کے مقدمے سے ملزمان کے خلاف قتل کی دفعہ خارج
بھارتی پولیس نے مسلمان نوجوان سے جبری طور پر 'جے سری رام' کے نعرے لگوانے اور اسے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار 11 ملزمان کے خلاف قائم مقدمے سے ’قتل کی دفعہ‘ خارج کردیں۔
اسکرول ان میں شائع رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی جنوبی ریاست جھارکھنڈ کی پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ’ملزمان کے خلاف 302 (قتل) کی دفعہ اس لیے خارج کی گئیں کیونکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق تبریز انصاری کی موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی'۔
مزید پڑھیں: بھارت: مسلمان شخص کا تشدد کے بعد قتل، 11 افراد گرفتار
واضح رہے کہ تبریز انصاری کے قتل، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، کے کیس میں غفلت برتنے پر 2 پولیس افسران کو معطل بھی کردیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 24 سالہ تبریز انصاری کو مشتعل ہجوم نے بھارت کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ کے گاؤں سرائے قلعہ میں تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ہندو مذہب کا نعرہ 'جے سری رام' لگانے پر مجبور کیا جارہا تھا اور مقتول کو ہجوم سے روتے ہوئے اپنی جان بخشنے کی درخواست کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
تبریز انصاری پر گاؤں کے لوگوں نے نقب زنی کا الزام عائد کیا تھا اور اسے ایک کھمبے سے باندھ کر 12 گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اسے پولیس نے حراست میں لے کر ہسپتال منتقل کیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تبریز انصاری کی اہلیہ نے پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اسے شدید زخمی ہونے کے باوجود بھی جان بوجھ کر حراست میں لینے کے بعد ہسپتال لے جانے کے بجائے پہلے تھانے لے کر گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: جنونی ہندوؤں کا مسلمان بزرگ پر تشدد، زبردستی سور کا گوشت کھلا دیا
اس ضمن میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کرتھیک ایس نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر سے دفعہ 302 خارج کرنے کی دو وجوہات بتائیں، پہلی یہ کہ تبریز انصاری موقعے پر جاں بحق نہیں ہوا اور دوسری یہ کہ گاؤں والوں کی نیت اسے قتل کرنے کی نہیں تھی۔
انہوں نے بتایا کہ علاوہ ازیں میڈیکل رپورٹ کے مطابق تبریز کی موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
پولیس حکام کے مطابق پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ میں کہا گیا کہ تبریز انصاری کی موت سر میں زخم کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ’دوسری طبی رائے کے مطابق تبریز انصاری کی موت دونوں وجوہات کے باعث ہوئی یعنی حرکت قلب بند ہونے اور سر پر گہرے زخم کی وجہ سے ہوئی‘۔
واضح رہے کہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب بھارتی حکومت نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ، جس میں کہا گیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اقلیتوں کے خلاف مذہبی تشدد میں اضافہ ہوا ہے، کو مسترد کردیا تھا۔
مزیدپڑھیں: ’گائے کے گوشت‘ پر قتل:بھارت میں 11 مجرمان کو عمر قید
امریکی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گائے کی حفاظت کرنے والے گروہ کے مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں، دلتوں پر حملوں کی تعداد میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اضافہ ہوا۔
بھارتی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے واقعے کی مذمت کی اور کہا تھا کہ 'اس طرح کے واقعے میں ملوث افراد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیدا کیا گیا مثبت ماحول تباہ کیا جائے'۔
دوسری جانب اپوزیشن نے حکومت پر قتل کے واقعات کو روکنے میں حکومت کی ناکامی پر سوال اٹھایا تھا۔
کانگریس کی ترجمان شما محمود کا کہنا تھا کہ 'کیا بی جے پی کی حکومت امریکی حکومت کی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے رپورٹ کو مسترد کرسکتی ہے جہاں مسلمانوں اور دلتوں کو کھلے عام تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جارہا ہے'۔