ماروی، بَر، بارش اور تَھر
ماروی، بَر، بارش اور تَھر
نہ جانے کتنے برسوں بعد دل کھول کر برکھا برسی ہے۔ اچھا ہے، کیونکہ پانی اور انسان کا رشتہ روزِ اول سے بقائے وجود کے لیے لازم ہے جبکہ ریگستان کے وجود میں پانی کی اتنی پیاس پنہاں ہے کہ بادل جتنے بھی برسیں اس کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔
یہی وجہ ہے کہ میری نظر جہاں تک جاتی ہریالی اور ریت کے ٹیلوں کا رومانس دکھائی دیتا۔ کسی کسی ٹیلے پر کچھ جھونپڑیاں بھی نظر آتیں۔ کسی درخت کے قریب کنواں بھی نظر آجاتا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے جہاں کنواں ہوتا ہے وہاں سر جھکائے ایک درخت بھی کھڑا ہوتا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ کون کس کو زیادہ چاہتا ہے مگر انہیں اکثر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے پایا ہے۔
صحرائے تھر سے منسوب یہ کہاوت کافی مشہور ہے کہ تھر دراصل برسنے کے بعد ’تھر‘ ہوتا ہے۔ اگر بادل نہ برسیں تو یہ’بر‘ ہی رہتا ہے۔
بر اس لیے کہا جاتا ہے کہ کم بارشیں ہونے سے گھاس اور فصل بہت کم اُگتی ہیں اور ایک دو ماہ میں سوکھ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے سبزہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ زیرِ زمین پانی کی سطح اس حد تک گر جاتی ہے کہ پانی کڑوا ہونے لگتا ہے۔ اس طرح تھر باسیوں کے آنگن میں ویرانیاں بسیرہ کرنے لگتی ہیں کیونکہ ہزاروں خاندان بیراجی علاقوں (بدین، سجاول اور ٹھٹہ) کی طرف نقل مکانی شروع کردیتے ہیں، تاہم اس برس بارانِ رحمت برسنے سے یہ صحرائی علاقہ ’بر‘ سے ’تھر‘ ہوگیا ہے۔