نقطہ نظر

مودی جی! وکرم کی جگہ اکرم بھیجیں

بھارت کو چاہیے کہ اپنا ذاتی چاند بناکر خلا میں بھیج دے جو اتنے فاصلے پر جہاں پہنچتے پہنچتےکوئی بھارتی وکرم ہانپ نہ جائے.

بھارت کے راگ کی طرح اس کے گانے بھی مشہور ہیں۔ ایسا ہی ایک گانا ہے ‘چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو، ہم ہیں تیار چلو ٹیوں ٹیوں ٹیوں‘ فلم ‘پاکیزہ’ کا یہ گانا ہیرو ہیروئن نے اتنی پاکیزگی سے فلمایا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا انہیں چاند کے پار کا سَناٹا کیوں درکار ہے؟

اتنی مہذب اور پاک پوِتر ملاقاتیں تو وہ دہلی کے چاندنی چوک پر بھی کرسکتے تھے۔ جو دوسری بات ہمارے لیے ناقابلِ فہم رہی وہ یہ کہ آخر وہ چاند کے پار کیوں جانا چاہتے ہیں، چاند پر کیوں نہیں؟ شاید انہوں نے سوچا ہوگا ‘کچھ نیا کر۔‘ غالباً اسی سوچ کے تحت اور اس گانے سے متاثر ہوکر بھارت نے چاند کے ’اُلّی‘ طرف جانے کی ٹھانی۔ یعنی چاند کے اُس رُخ پر جو ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے اور جسے فلکیات کی اصطلاح میں چاند کا قطب جنوب کہتے ہیں اور اس کیفیت کو ‘ٹائیڈل لاک‘ کا نام دیا گیا ہے۔

مگر ہائے افسوس کہ ابھی نندن جی کی پرواز کی طرح اس بھارتی مشن کی اُڑان بھی ناکام رہی اور اس کی چاند گاڑی ’چندریان ٹو‘ جسے ‘وکرم‘ کا نام دیا گیا تھا، کا رابطہ چاند پر اُترنے سے پہلے ہی بنگلور میں قائم بھارت کے خلائی ادارے ’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ (آئی ایس آر او) سے ٹوٹ گیا جس کے ساتھ ہی مودی جی کا دل اور سپنا بھی ٹوٹ گیا، ان کی امید کا دامن چھوٹ گیا، خیر رہی کہ اس ناکامی پر انہوں نے یہ الزام نہیں لگایا کہ پاکستانی ادارہ آئی ایس آئی ہمیں خلا میں بھی لُوٹ گیا۔

بھارت اور مودی جی کے ساتھ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب بھارتی خلائی جہاز چاند سے محض 2.1 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اسے کہتے ہیں:

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند

دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

مودی جی اور بھارتی خلائی سائنسدانوں کا دل تو چاہ رہا ہوگا کہ سر پیٹ پیٹ کر یہ شعر پڑھتے ہوئے صرف 2 کلومیٹر کی دوری پر رابطہ توڑ دینے والے اپنے ’وکرم‘ کے دو چار ہاتھ لگائیں، مگر وہ ہاتھ کب آئے گا، رابطے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے۔

اب بھیا چاند کوئی کشمیر تو ہے نہیں جب چاہے جتنے چاہے سِینَک بھیج دیے۔ وہ تو چندا ماموں دور کے ہیں، جنہوں نے بھارتی بھانجے کو اتنے پاس بُلاکر ماموں بنادیا۔

کیا کریں ہم سے مودی جی کا دُکھ دیکھا نہیں جارہا۔ بے چارے کیسے آس لگائے اس خلائی مشن کے کمانڈ سینٹر میں بیٹھے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ابھی نندن کو پاکستان کی سمت روانہ کرکے انتظار کررہے تھے کہ وہ ابھی گیا ابھی آیا تباہی پھیلا کر۔

نندن تو گِرگرا کے واپس آگیا تھا، لیکن ’وکرم‘ اتنا گرا ہے کہ واپسی کے قابل ہی نہیں رہا۔ خلا میں چاند کے آس پاس بھی کوئی پاکستان ہوتا تو شاید ابھی نندن کی طرح گرے پڑے وکرم کو عزت کے ساتھ شام تَلک واپس بھیج دیتا، اور بھارت میں وکرم کو بھی تِلک لگائے اور ہار پہنائے جارہے ہوتے۔

ہم سوچ رہے ہیں مودی جی کی آس بار بار کیوں ٹوٹتی ہے، جس طرح ان کی ماتا جی سوچتی ہوں گی ’میرا بچہ ایسا کیوں ہے؟‘، ماتا جی کو معلوم نہیں اپنے سوال کا جواب ملا یا نہیں، ہمیں تو بہت غور کرنے کے بعد مل گیا۔ دراصل غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے مودی جی کی کوئی ساس نہیں، اس لیے آس ان سے ساس والا سلوک کرتی ہے۔

آس کا یہ ساسی سلوک اپنی جگہ لیکن خلائی مشن کی ناکامی کی ایک اور وجہ بھی ممکن ہے، حیرت ہے کہ اتنے سامنے کی بات مودی صاحب کی نظروں میں کیوں نہ آسکی، شاید اس لیے کہ وہ اب تک آس پاس دیکھنے کے بجائے خلاؤں میں جھانک رہے ہیں، آنکھیں نیچی کریں اور سیما پار نظر ڈالیں تو انہیں وہاں پاکستان کا پرچم لہراتا نظر آئے گا۔ اس پرچم پر بنا چاند صاف صاف بتارہا ہے کہ پاکستان اور چاند کے بیچ کوئی سمبندھ ہے۔

پس تو مودی سرکار کو جھٹ پٹ بلکہ ’فَٹ دھنی سے‘ یہ الزام لگادینا چاہیے کہ ‘چاند اور پاکستان کے مابین بڑا یارانہ لگتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ چاند کٹر مسلمان ہے، جبھی تو پورا سال عیدیں منواکر اور مہینے شروع کرواکر مسلمانوں کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔ خاص طور پر چین کی طرح پاکستان کا یہ پکا آڑی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کے کہنے پر چاند نے ہمارا خلائی مشن ناکام کردیا۔ جوں ہی ہماری چاند گاڑی چاند کے قریب پہنچی اور بس کَنّوں کا فاصلہ رہ گیا تھا کہ چاند ’اوئی اللہ، کوئی دیکھ لے گا‘ کہہ کر دوڑ گیا اور وکرم میاں اپنی جھونک میں آگے نکلتے چلے گئے اور کسی بلیک ہول میں جاگھسے۔‘

ساتھ ہی بھارت سرکار دھمکی دے کہ اگر چاند اپنی پاکستانی دوستی اور بھارت دشمنی سے باز نہ آیا تو اس پر سرجیکل اسٹرائک کی جائے گی۔ اگر چاند پھر بھی اپنی حرکتیں نہ چھوڑے تو بھارت راجستھان کے صحرا میں کہیں سرجیکل اسٹرائیک کرکے اپنی جنتا کو تو خوش کرسکتا ہے لیکن چاند کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا، اس لیے بہتر ہوگا کہ بھارت اپنا ذاتی چاند بناکر خلا میں بھیج دے، جو اتنے فاصلے پر ہو کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے کوئی بھارتی وکرم ہانپ نہ جائے۔

ایک کام اور ہوسکتا ہے۔ بھارت چاند کو دھوکا دے۔ وہ اس طرح کہ اپنے نئے خلائی مشن کا نام وکرم کے بجائے ’اکرم‘ رکھ دے۔ یہ اکرم چاند کے پاس پہنچتے ہی ’سلام علیکم جناب!‘ کہے، ’جناب‘ اس لیے کہے کہ بھارتی فلموں میں مسلمان بالخصوص پاکستانیوں کا ایک دوسرے کو جناب کہہ کار مخاطب کرنا لازمی ہے، ورنہ وہ مسلمان نہیں رہیں گے۔ سلام کرتے ہی فوراً چاند پر اُتر جائے اور وہاں سے مودی جی کو اطلاع دے کہ ’پردھان منتری جی! ہم چاند کو اُلو بنا لیے ہیں اور خود کو اس میں گُھسا لیے ہیں۔‘

ہمیں امید ہے کہ مودی جی کو ہمارا مشورہ پسند آئے گا، جلد وکرم نہیں اکرم چاند کی سمت جائے گا۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔