سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ کس مشن پر پاکستان آئے؟
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے اکٹھے پاکستان کا دورہ کیا اور اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کی اندرونی کہانی یہ سامنے آئی کہ عرب دوستوں نے پاکستان پر واضح کیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع ہے، اسے مسلم امّہ کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
اس خبر کو انکشاف کے طور پر نہیں لیا جاسکتا کیونکہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری پہلے ہی پاکستانیوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور انہیں یہ بات اعلیٰ سطح کے رابطوں کے دوران سمجھ آچکی تھی۔ وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت نے اسی لیے اس خبر پر نہ بُرا منایا اور نہ ہی اس کی تردید کی ضرورت محسوس کی گئی۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز دینے کے بعد اماراتی وزیرِ خارجہ کا سعودی ہم منصب کے ساتھ پاکستان آنا اہم ہے۔ ایک تو نریندر مودی کو ایوارڈ دینے سے اماراتی شیخوں کے بارے میں پاکستان میں رائے عامہ متاثر تھی دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ واضح کیا جائے کہ نریندر مودی کو ایوارڈ دینے سے عرب امارات پاکستان کے ساتھ دشمنی نہیں کر رہا۔ تیسری وجہ اسرائیل فلسطین تنازع پر امریکی صدر کے ’ڈیل آف دی سنچری‘ کے اجرا کی تاریخ کا قریب آنا ہے۔ فلسطین تنازع کو بھی کشمیر کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ فلسطین پر بھی عربوں کا مؤقف کشمیر کی طرح بدل گیا ہے۔
پاکستان میں اماراتی شیخوں سے متعلق رائے عامہ ہمارے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی ہموار کرچکے ہیں۔ جہاں تک بات ہے دشمنی کا تاثر ختم کرنے کی تو یہ اماراتی شیخوں کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ عالمی سچائی کے طور پر ایک محاورہ سفارت کاری کا حصہ ہے کہ اگر تم اپنے حریف کو شکست نہیں دے سکتے تو اس کے شراکت دار بن جاؤ۔
عرب امارات کو سی پیک اور گوادر سے کتنی ہی پرخاش کیوں نہ ہو یہ حقیقت ہے کہ چین سی پیک سے پیچھے ہٹے گا اور نہ ہی گوادر منصوبے کو ناکام ہونے دے گا۔
امارات کو ان دونوں منصوبوں سے ڈر ہے لیکن اسے یہ بھی علم ہے کہ وہ انہیں روکنے کی پوزیشن میں نہیں، اس لیے وہ سفارت کاری کے اس سنہرے اصول پر عمل پیرا ہے۔ امارات پاکستان کو دشمن بنانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن بھارت کے ساتھ مفادات بھی جڑے ہیں، اس لیے اس نے واضح کردیا ہے کہ کشمیر کو چھوڑ کر باقی تمام امور پر پہلے کی طرح تعلقات اور تعاون برقرار رہے گا۔
سعودی وزیرِ خارجہ اماراتی ہم منصب کے ساتھ آئے تاکہ وہ ثالثی کا کام کریں۔ سعودی عرب اور امارات یمن جنگ میں حلیف سے حریف بنتے جا رہے ہیں لیکن سعودی عرب اس امید پر امارات کا ساتھ نبھا رہا ہے کہ یمن میں امارات جنوبی یمن کی علیحدگی پسند کونسل کی سرپرستی چھوڑ دے گا۔
اسرائیل میں 17 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے فوری بعد اسرائیل فلسطین امن منصوبے کی نقاب کشائی ہونا ہے۔ امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ جیسن گرین بلاٹ کا استعفیٰ اس امن منصوبے میں رکاوٹ نہیں بنے گا بلکہ یہ ایک اشارہ ہے کہ ان کا کام مکمل ہو گیا۔
اسرائیل فلسطین تنازع کے ممکنہ حل کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بھی سر اٹھائے گا۔ اس کے لیے پہلے ہی سعودی عرب اور پاکستان میں بحث شروع کرائی جاچکی ہے۔ سعودی عرب میں حکومت کے ماؤتھ پیس کی حیثیت رکھنے والے صحافی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دلائل پیش کرچکے ہیں اور رائے عامہ کافی حد تک ہموار کی جاچکی ہے۔
پاکستان میں معروف صحافی اور اینکر کامران خان نے حکومت کا کام آسان کرتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر ٹویٹ داغی اور اس کی ٹائمنگ اہم تھی۔ کامران خان ایک دن پہلے کپتان سے ملاقات کرچکے تھے۔ امارات کی طرف سے مودی کو ایوارڈ دیے جانے والے عمل نے بھی پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کی بحث چھیڑنے میں آسانی فراہم کی۔
پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کی بحث نئی نہیں۔ 2012ء میں پرویز مشرف نے اسرائیلی اخبار کو انٹریو دیا اور کہا تھا کہ ہم قیامِ پاکستان سے ہی فلسطین کی حمایت کرتے آئے ہیں، لیکن میں حقیقت پسندی اور زمینی حقائق کے جائزے پر یقین رکھتا ہوں، تب سے اب تک بہت کچھ ہوچکا اور پالیسیاں ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں۔ کئی عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ کھلے یا ڈھکے چھپے تعلقات ہیں، اسرائیل ایک انمٹ حقیقت ہے، پاکستان کو بھی اسرائیل کے بارے میں مؤقف میں تبدیلی لانا ہوگی۔
پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ میں پائی جانے والی سوچ کی عکاسی کی تھی۔ اب دوبارہ بحث چھڑی ہے تو شاہ محمود قریشی نے بھی حصہ ڈالا اور کہا کہ عرب امارات کو اپنے قومی مفادات میں فیصلوں کا اختیار ہے، بین الاقوامی تعلقات مذہب سے بالاتر ہوتے ہیں۔ فواد چوہدری نے بھی ٹویٹر بھی ایسا ہی ایک مضمون باندھا۔ عرب دوستوں کی آمد مشرق وسطیٰ میں تبدیل ہوتے اسٹریٹیجک مفادات کے پیش نظر تھی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بھی ان اسٹریٹیجک مفادات میں اہم ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تو پہلے سے ہی عوامی جذبات ماپنے پر کام شروع کرچکے ہیں۔ پچھلے سال اٹلانٹک میگزین سے انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے کئی مشترکہ مفادات ہیں اور اگر خطے میں امن ہوجائے تو اسرائیل اور خلیج تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے بھی مفادات مشترک ہوجائیں گے۔
اس سال فروری میں وارسا میں ہونے والی مشرق وسطیٰ کانفرنس میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں بحرین اور امارات کے وزرائے خارجہ اسرائیل کی بقا اور اس کے دفاع کے حق میں دلائل دیتے رہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر نے اس گفتگو کی ویڈیو لیک کردی تھی۔ یہ اجلاس بھی عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی گرم جوشی کی ایک عمدہ مثال ہے۔
عرب امارات، بحرین اور عمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ سعودی عرب نے بھارتی ایئرلائن کو اسرائیل کے لیے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے کر صاف اشارہ دیا ہے۔ مئی میں سعودی عرب نے اسرائیلی عربوں کو سعودی عرب میں قیام اور روزگار کے منصوبے کی منظوری دی۔ اسرائیلی تاجروں کو خصوصی پرمٹ دیے جا رہے ہیں جس کے بعد انہیں پاسپورٹ دکھائے بغیر سعودی عرب داخلے کی اجازت ہوگی۔
سعودی عرب اسرائیل سے گیس کی درآمد کے لیے پائپ لائن منصوبے پر مذاکرات کرچکا ہے۔ یہ پائپ لائن اسرائیل کے بحیرہ احمر پر واقع ساحلی شہر ایلات سے سعودی عرب تک بچھائی جائے گی جو اردن کی خلیج عقبہ سے صرف 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسرائیلی سمندری حدود میں 10 سال پہلے گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے لیکن 80 فیصد گیس کا کوئی خریدار نہ ملنے پر یہ ذخائر بے مصرف پڑے ہیں۔ سعودی عرب سستی بجلی کی بڑھتی مانگ کے لیے اس گیس کا بڑا خریدار بن سکتا ہے۔ پھر اسی راستے تیل پائپ لائن بچھا کر سعودی عرب آبنائے ہرمز کا خطرناک راستہ ترک کرکے یورپی ملکوں کو تیل محفوظ اور مختصر راستے سے سپلائی کرسکتا ہے۔
اسرائیلی انتخابی نتائج کے بعد فلسطین امن منصوبے کو زبردستی تھوپ کر اسرائیل سے تعلقات کا جواز پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس پر کام شروع کردیا گیا ہے اور کئی مسلم ممالک مربوط ڈھنگ سے ایک ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کرسکتے ہیں۔ اگرچہ امن منصوبے کی کامیابی پر ابھی تک شبہات موجود ہیں لیکن امکانات کا وسیع تر جائزہ شروع کیا جاچکا ہے۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔