نقطہ نظر

’میرا خواب ہے میرے بچے سی ایس ایس کریں اور بڑے افسر بنیں‘

بی اے پاس کرنے کے باوجود بھی جب نصرت بانو کو نوکری نہ ملی تو اس نے کبھی کھیتوں میں کام کیا اور کبھی مزدوری کی۔

بھلے ہی اسے صنفِ نازک پکارا جائے یا پھر صنفی امتیاز کا نشانہ بنایا جائے، لیکن تاریخ گواہ ہے عورت ہمیشہ سے محنت، مشقت اور جدوجہد کی علامت بنی ہوئی ہے۔

وہ جنگوں کے میدانوں اور جاگیر یا سرمائے ہتھیانے کی چالوں میں زیادہ نظر نہیں آتی، بلکہ اس کے برعکس وہ فطرت سے محبت اور دھرتی سے وفا نبھاتے ملتی ہے۔ اس نے ہمیشہ بانٹ کر کھایا اور کھلایا ہے۔ جب بھی اور جتنا بھی موقع ملا وہ سماج میں مثبت رویوں اور تبدیلیوں کو بدلنے کے لیے آگے بڑھیں۔

یہ تحریر دراصل آپ کو ایک ایسی ہی خاتون سے آشنا کروانے کی کاوش ہے جس نے عملی میدان میں اتر کر اپنے علاقے میں شعور اور آگہی کے دیپ جلانے کی ٹھانی ہے۔

ضلع لاڑکانہ کے دیہی علاقے پیارو مگسی سے تعلق رکھنے والی نصرت بانو سے ملاقات یورپی یونین اور سندھ حکومت کے اشتراکی معاشی منصوبے ’سندھ یونین کونسل اور کمیونٹی اکنامک اسٹرینتھ سپورٹ پروگرام‘ (سکسز) میں ہوئی۔ اس منصوبے کے تحت یونین کی سطح پر خواتین کو آگے لانے اور غربت کو کم کرنے کا موقع دیا جارہا ہے۔ نصرت کو پورا یقین ہے کہ محنت ہی ان کی زندگی میں تبدیلی لائے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’میرا خواب ہے میرے بچے سی ایس ایس کریں اور بڑے افسر بنیں۔‘

شکر ہے کہ نصرت نے پانچ جماعتیں پڑھ لیں تھی جس کی بدولت آج وہ اپنے محلے کی پہلی کمیونٹی افسر اور منیجر ہیں۔

نصرت بانو—تصویر شیما صدیقی

نصرت نے ہمیں اپنے کچے کمرے میں بٹھایا جس کی مٹی سے بنی دیواروں نے لاڑکانہ کی آگ برساتی گرمی کی ساری تپش کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا۔ نصرت نے بتایا کہ وہ بلوچ قوم سے تعلق رکھتی ہیں اور آس پاس کے علاقوں میں زیادہ تر کھوسا اور بروہی قبائل آباد ہیں۔

نصرت نے بتایا کہ اگرچہ ان کے علاقے میں اب 14 یا 15 برس کے بچوں کی شادی کی سماجی لعنت اس حد تک عروج پر نہیں جس طرح ان کے بچپن میں تھی اور ان کی اپنی شادی تقریباً 20 سال پہلے 15 برس کی چھوٹی عمر میں ہی ہوئی تھی۔

زندگی کا سفر اس وقت ہی آسان ہوتا ہے جب جیون ساتھی ہاتھ بٹانے والا ہو، نصرت کو اگر ایک مثالی جیون ساتھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ وہ اپنی ساس اور شوہر کی طرح چاہتی ہیں کہ ان کے بچے خوب تعلیم حاصل کریں اور اپنے دن بدلیں۔

انہیں اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کا حوصلہ اپنی ساس سے ملا کیونکہ ان کی ساس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو سلائی کڑھائی کرکے پڑھایا تھا، تاہم حالات کا ستم کہیے کہ بیٹا بی اے پاس کرنے کے باوجود بھی کسی جگہ نوکر نہ لگ سکا۔ لہٰذا اس نے ڈگریاں ایک طرف رکھ کر کبھی کھیتوں میں کام کیا تو کبھی مزدوری کی اور کبھی کوئی اور کام کیا۔

نصرت بانو کا گھر—تصویر شیما صدیقی

نصرت بانو کا گھر—تصویر شیما صدیقی

جس سماج میں استحصالی قوتیں ہوں اور مزدور کو اس کا جائز حق نہ ملتا ہو وہاں غربت و افلاس کا سایہ دُور دُور تک پھیلا ہوتا ہے، اسی لیے نصرت کا شوہر جو 4 پیسے کماتا ہے اس سے بمشکل پیٹ ہی بھرا جاسکتا ہے پورا گھر نہیں سنبھالا جاسکتا۔

لہٰذا ان حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آخر کار انہوں نے کپڑوں کی سلائی سیکھی، اس سے یہ ہوا کہ وہ درزی کی دکان پر بیٹھنے لگے لیکن غربت کے تماشے اور ہوتے ہیں۔ اپنی مشین نہ ہونا اہم رکاوٹ بنی، اس لیے سلائی سیکھ کر بھی کبھی کام ملتا اور کبھی نہیں کیونکہ گاؤں میں لوگ شادی بیاہ یا عید تہوار پر ہی نئے کپڑے پہننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

جب اپنی سلائی مشین ہونا ضروری ٹھہرا تو نصرت اور ان کے شوہر نے قرض لیا، کچھ بچت اور جوڑ توڑ کرکے سلائی اور کڑھائی مشین خریدلی۔ اب دونوں میاں بیوی کپڑے کی سلائی اور کڑھائی کا کام مل کر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اب انہیں دن میں چار پانچ سو روپے مل جاتے ہیں۔

نصرت نے گفتگو کے دوران تھوڑا وقفہ لیا اور انتہائی پُرعزم لہجے کے ساتھ گویا ہوئیں، ’میرا خواب ہے کہ میرے بچے سی ایس ایس پاس کریں اور بڑے افسر بن کر گاؤں آئیں۔‘ نصرت کی آنکھوں میں اُمید کی چمک تھی، ہم نے محسوس کیا کہ وہ لمحہ موجود میں ہی اپنے بچوں کو افسر کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

نصرت بانو لاڑکانہ کی یونین کونسل 13 کی رہائشی ہیں۔ اس یونین کونسل کی آبادی 1978 نفوس پر مشتمل ہے۔ جس میں کل گھروں کی تعداد 293 ہے۔ 250 لوگوں کے پاس موبائل فون اور 142 گھروں میں ٹی وی موجود ہے، جبکہ لیٹرین کی سہولت 231 گھروں میں موجود ہے۔

نصرت بانو کا گاؤں—تصویر شیما صدیقی

تعلیم کی بات کریں تو 5 سے 16 برس کے بچوں کی تعداد 684 ہے جن میں سے 47 فیصد بچے اسکول جارہے ہیں۔

اگر بالغین کی تعلیم کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو 84 فیصد مرد اور 96 فیصد عورتیں کبھی اسکول گئے ہی نہیں۔ یعنی یہاں کے بنیادی مسائل میں سرِفہرست تعلیم، صحت اور بے روزگاری ہے۔

نصرت بانو لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہاں ایک سرکاری اسکول ہے جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ یہاں اساتذہ مرد ہیں اس وجہ سے لوگ اپنی بیٹیوں کو پرائمری کے بعد اسکول بھیجنا بند کردیتے ہیں جبکہ لڑکیوں کے لیے مخصوص اسکول گاؤں سے باہر واقع ہے، اور گاؤں والے لڑکیوں کو گاؤں سے باہر بھیجنا معیوب تصور کرتے ہیں۔

نصرت کے گاؤں میں ہماری ملاقات یونیفارم میں ملبوس ایک چھوٹی بچی سے ہوئی، جس نے بتایا کہ اسکول میں اساتذہ موجود نہیں تھے، اس لیے وہ گھر آگئی، مزید معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اسکول میں اکثر اساتذہ غیر حاضر رہتے ہیں۔

نو عمری میں شادیوں کے حوالے سے نصرت بانو کا کہنا ہے کہ ’یہ یہاں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ لوگوں کو بچوں کی چھوٹی عمر میں شادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل و پیچیدگیوں کی آگاہی بھی دی جاتی ہے اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے کہا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی لوگ خاموشی سے اپنے بچوں کی شادیاں کر رہے ہیں۔ کل ہی ایک ایسی لڑکی سے ملاقات ہوئی جس کی کم عمری میں شادی کردی گئی تھی، اور اب 16 سال کی عمر میں وہ 4 بچوں کی ماں بن چکی ہے۔‘

16 برس کی لڑکی جس کی 2 سے 3 سال قبل شادی ہوئی تھی، اور آج یہ 4 بچوں کی والدہ ہیں— شیما صدیقی

انہوں نے مزید بتایا کہ 2 ماہ قبل انہوں نے ایک نو عمر لڑکی کی شادی روکی تھی، جس میں 15 سالہ لڑکی کو 30 سالہ آدمی سے رشتہ ازدواج میں منسلک کیا جا رہا تھا۔

نصرت سمجھتی ہیں کہ خواتین کی صحت بھی ان کے گاؤں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘میرا بھی ایک بچہ پیدائش کے فوراً بعد چل بسا تھا۔ پہلے لوگ عورتوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا اپنی روایات کے منافی عمل سمجھتے تھے لیکن اب لوگوں میں ماں اور بچے کی صحت کو لے کر فکر بڑھی ہے جس کے باعث ان کے رجحانات میں کافی تبدیلی آ رہی ہے۔ اب وہ زچگی کے دوران ڈاکٹر یا لیڈی ہیلتھ ورکر کی نگرانی کو اہمیت دیتے ہیں۔‘

تاہم یہاں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکر تو موجود ہے لیکن جو یہاں سب سے قریبی ہسپتال ہے وہ بھی 3 کلومیٹر دُور ہے۔ دیہاتیوں کو چھوٹی سے چھوٹی بیماری کے علاج کے لیے بھی لاڑکانہ جانا پڑتا ہے۔

نصرت نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے گاؤں میں ایک 16 برس کی لڑکی کی حمل کے دوران حالت انتہائی خراب ہوگئی تھی۔ اس کا بچہ دوران زچگی فوت ہوچکا تھا، بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے گاؤں کی دائی نے کہا کہ ’اسے بڑے ہسپتال لے جاؤ۔‘ یوں سمجھیے وہ لڑکی موت کے منہ سے باہر آئی تھی۔

ان تمام مسائل اور مشکلات کے باوجود نصرت بانو کا حوصلہ چٹان کی طرح مضبوط ہے۔ وہ پُرعزم ہیں کہ اپنے بچوں کو کارآمد شہری بنائیں گی، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے اردگرد شعور و آگہی کے دیے جلائے رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی تبدیلی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔