صلاح الدین: ایک ایسا کردار جس نے تماش بینوں کو خوب تماشا دکھایا


یہ کسی کھڑکی توڑ فلم کی کہانی سے کم نہیں۔ صلاح الدین ایوبی جیسے نام سے لے کر جسم پر تشدد اور زخموں کے نشانات کی تصاویر تک، اس کردار نے تماش بینوں کو خوب تماشا دکھایا۔
بینک کی اے ٹی ایم مشین کے کیمرے کے سامنے وہ شخص پوری دلیری سے منہ چڑھاتے ہوئے پہلی بار تماشے کے اسٹیج پر جلوہ گر ہوا۔ اس شخص نے اس پورے نظام کا مذاق اڑایا جو اکثر و بیشتر خود کو زندہ رکھنے کے لیے تشدد پر منحصر رہتا ہے۔
پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک چھوٹے قصبے سے تعلق رکھنے والے اس ایوبی کی کہانی میں تحرک ملتا ہے، جسے حاصل ہونے والی اس مختصر عرصے کی شہرت الزام تراشیوں اور خود پر افسوس کے ایک طویل سلسلے کی وجہ بن چکی ہے۔
تماشے کا منظر لاہور کے قریب واقع کاموکی سے فیصل آباد منتقل ہوجاتا ہے کہ جہاں اطلاعات کے مطابق ہمارے مرکزی کردار نے اے ٹی ایم کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اسی جگہ پر اس کے منہ چڑھانے کی ویڈیو ریکارڈ ہوئی تھی۔ پھر یہاں سے کہانی ذیلی پنجاب میں رحیم یار خان منتقل ہوجاتی ہے، لیکن تب تک ایوبی کی فیصل آباد میں دکھائے گئے کارناموں کی ویڈیو قومی ٹی وی پر خاصا ایئر ٹائم حاصل کرچکی ہوتی ہے۔
ناظر یہ مناظر دیکھ کر اس بات کو جان چکے تھے کہ وہ شخص ایک عام فرد نہیں ہے لہٰذا اسے اسپیشل یا خصوصی حیثیت میں سنبھالنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
نہ جانے اب ان لوگوں کے ذہن میں کیا چل رہا ہے جنہوں نے اطلاعات کے مطابق ایوبی کو پولیس کے حوالے کیا۔ اگر اب تک کی موصول ہونے والی اطلاعات کی تفصیلات میں صداقت ہے تو وہ لوگ اپنا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ رپورٹس کے مطابق رحیم یار خان کے اس گروپ نے ایوبی کو اے ٹی ایم مشین کو مشکوک انداز میں استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک آدمی نے ایوبی کو ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج سے پہچان لیا تھا، اور پھر انہوں نے یہ طے کیا کہ پولیس ہی ہے جو اس شخص سے نمٹنے کے لیے درکار تمام ساز و سامان سے لیس ہے۔
ابتدائی طور پر ایسا بھی کہا گیا کہ ممکن ہے کہ ایوبی کو قانون نافذ کرنے والوں کے حوالے کرنے سے پہلے ان افراد نے پکڑے گئے شخص کو مارا پیٹا ہوگا، لیکن یہ سارے اشارے مدھم پڑتے گئے اور اس کہانی میں بڑی حد تک پولیس کا کردار زیرِ غور لایا گیا ہے۔
رحیم یار خان کے ہسپتال سے موصول ہونے والی حالیہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے 31 اگست بروز ہفتے کی شام صلاح الدین ایوبی کو مردہ حالت میں وصول کیا تھا۔ یہ کیس اس وقت مزید پُراسرار بن جاتا ہے جب متعلقہ علاقے کے پولیس افسر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ایوبی کے جسم پر تشدد کے نشانات نہیں تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے یہاں تک بھی کہا کہ وہ تصاویر جن میں تشدد کے نشان دکھائے گئے ہیں اور یہ دعوے کیے کہ یہ تشدد کا نشان ایوب کے جسم کے ہیں، یہ دراصل لاش کی بے حرمتی ہے۔
واقعے پر جاری عدالتی جانچ کے بعد یہ ثابت ہوجائے گا کہ آخر ہوا کیا تھا اور امید ہے کہ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اس موت کا ذمہ دار کون تھا۔
کہانی کو کوئی دوسرا رخ دینا بہت کٹھن ثابت ہوگا کیونکہ لوگ کہانی کے اس رخ پر یقین کر بیٹھے ہیں جو انہوں نے دیکھا ہے۔ خاص طور پر ایوبی کے اس آخری جملے کو جھٹلانا تو بہت ہی کٹھن ہوگا جس کی بنیاد پر لوگ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ اصل مجرم کون ہے اور وہ جملہ تھا، ’آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟‘