پاکستان

استاد کے 'تشدد' سے طالبعلم کی ہلاکت، ٹوئٹر صارفین کا مقتول کیلئے انصاف کا مطالبہ

سبق یاد نہ کرنے پر کمپیوٹر کے استاد نے حنین کا سر دیوار پر دے مارا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے، ٹوئٹر صارف
|

لاہور کے نجی اسکول میں استاد کے مبینہ تشدد سے گزشتہ روز جاں بحق ہونے والے دسویں جماعت کے طالب علم کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انصاف کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

حافظ حنین بلال کے مبینہ قتل کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر #JusticeForHunain کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کررہا ہے۔

پولیس کے مطابق حافظ حنین بلال دسویں جماعت کے طالب علم تھے جنہیں سبق یاد نہ کرنے پر استاد کامران نے ’تشدد‘ کا نشانہ بنایا تھا۔

استاد کو واقعے کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا تھا اور حنین کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے بھجوا دیا گیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق استاد نے متعدد مرتبہ حنین بلال کو گھونسے مارے اور اس کے بال پکڑ کر چیختے ہوئے دیوار پر سر مارا اور حنین کلاس روم میں گر گیا اور موقع پر ہی دم توڑ دیا‘۔

مزید پڑھیں: لاہور میں استاد کے مبینہ تشدد سے دسویں کلاس کا طالبعلم جاں بحق

علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ استاد نے ماضی میں بھی طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس پر انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا تھا لیکن 6 ماہ بعد ملازمت پر بحال کردیا گیا تھا۔

اسکول انتظامیہ کی جانب سے واقعے سے متعلق تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عائشہ ستار نے ٹوئٹ کیا کہ وہ حافظ حنین بلال کی رشتے دار ہیں، انہوں نے کہا کہ ’سبق یاد نہ کرنے پر کمپیوٹر کے استاد کامران نے حنین کو قتل کردیا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ استاد نے اس کا سر دیوار پر مارا تھا جس سے حنین موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

ایک اور ٹوئٹر صارف رمشا نعیم نے کہا کہ حنین کی کزن نے مختلف ٹوئٹس میں واقعے کی تفصیلات بیان کیں اور ٹوئٹر صارفین نے اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’تم ہمیں بہت جلد چھوڑ گئے، میں تمہارے بغیر ایک اور دن کا تصور نہیں کرسکتی، یہ جان کر میرا دل دکھتا ہے کہ ان کا بہیمانہ قتل کیا گیا اور کسی نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ‘۔

رمشہ نعیم نے مزید لکھا کہ ’وہ دنیا میں انصاف کا حقدار ہے، ٹوئٹر اپنا کام کرے‘۔

وزیر مملکت برائے اقتصادی امور ڈویژن حماد اظہر نے رمشا نعیم کے ٹوئٹس کا جواب دیتے ہوئے حنین کے قتل پر اظہارِ تعزیت کیا اور کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس کیس کی نگرانی کررہے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’اس المناک حادثے پر حنین کے اہلِ خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، لڑکے کا خاندان اور نجی اسکول لاہور میں میرے حلقے میں واقع ہے اور میں ذاتی طور پر اس کیس کی نگرانی کررہا ہوں‘۔

حماد اظہر نے کہا کہ ’استاد جیل میں ہے اور میں یقینی بناؤں گا کہ ٹیچر اور اسکول کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی'۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمر طالب علم کو گھاس کھانے پر مجبور کرنے والے استاد پر مقدمہ

وزیر مملکت نے متعلقہ وزیر تعلیم سے ملاقات اور جسمانی سزا کے خلاف قوانین پر نظرثانی کی ضرورت پر تبادلہ خیال کا وعدہ کیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے واقعے کو ’ہولناک‘ قرار دیا اور کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں واقع اسکول میں پیش آنے والا پہلا واقعہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جسمانی سزا کے خلاف ایک بل وزارت قانون میں گزشتہ 4 برس سے التوا کا شکار ہے اور امید ہے کہ اسے جلد کلیئر کیا جائے گا۔

ہم کس قسم کے معاشرے میں رہتے ہیں؟ ٹوئٹر صارفین

حافظ حنین بلال کے قتل سے متعلق ہولناک تفصیلات سامنے آنے پر ٹوئٹر صارفین نے نظامِ تعلیم اور ملک میں قانون کی صورتحال پر سوال اٹھایا۔

ثاقب حسین نے ٹوئٹ کیا ’اساتذہ سفاک ہیں، پولیس سفاک ہے، بیوروکریٹس اور سیاستدان کرپٹ ہیں، وکلا قانون توڑتے ہیں، ڈاکٹر قصائی ہیں، ہر عام آدمی اپنی طاقت اور پہنچ کے مطابق کرپٹ ہے، ہم کس قسم کے معاشرے میں رہتے ہیں؟‘

ٹوئٹر صارف اریبہ حق نے لکھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے دنیا میں انسانیت باقی نہیں رہی، چند دن پہلے صلاح الدین تھا، پھر اسرا اور آج حنین ہے، آپ پولیس، اساتذہ اور یہاں تک کہ اپنے خاندان سے محفوظ نہیں ہیں، یہ سب تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔

میم الف نامی صارف نے لکھا کہ ’ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ کوئی اتنا غیر انسانی کیسے ہوسکتا ہے؟ میں امید کرتی ہے کہ اس کے والدین اس شخص کو عدالت کے کٹہرے میں لے کرجائیں اور اسے سزائے موت ہو‘۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس بچے کی جانب دیکھیں، اس کے دوست ہوں گے، اس کے آگے پوری زندگی تھی، میں تصور نہیں کرسکتی کہ اس وقت اس کے گھر والوں پر کیا گزر رہی ہوگی‘۔

تشدد کے خاتمے سے متعلق قانون متعارف کروایا جائے گا، صوبائی وزیر

بعد ازاں پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اسکول ایجوکیشن مراد راس کا کہنا تھا کہ تشدد کے خاتمے سے متعلق قانون متعارف کروایا جائے گا۔

صوبائی وزیر برائے اسکول ایجوکیشن استاد کے مبینہ تشدد کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم حافظ حنین بلال کے گھر گئے اور مقتول کے والد سے اظہارِ تعزیت کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسے واقعات کے خاتمے کے لیے ہمیں اسمبلی میں قوانین منظور کرنے ہوں گے، ہم قوانین متعارف کروائیں گے جس کے تحت ڈاکٹروں کی طرح اساتذہ کو بھی اہلیت کے لیے لائسنس حاصل کرنا ہوگا‘۔

صوبائی وزیر برائے اسکول ایجوکیشن نے مقتول طالب علم کے گھر کا دورہ کرنے کے بعد حنین کے اہلِ خانہ سے وعدہ کیا کہ وہ خود کیس کی پیروی کریں گے۔

انہوں نے علاقے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) امجد کو حنین کے قاتل کے خلاف سخت کارروائی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔

بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مراد راس نے کہا کہ ’میرے پاس الفاظ نہیں کہ کیا سفاکیت ہوئی، ایک چھوٹی سی بات پر بچے کی جان لے لینا سمجھ سے باہر ہے‘۔

مراد راس نے کہا کہ اسکول فرنچائز اور استاد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ اسکول کو بند نہیں کیا گیا کیونکہ وہاں داخل بچوں کی پڑھائی کا حرج ہوگا۔