دنیا

برطانوی وزیراعظم کو ’بریگزٹ حکمت عملی‘ پر پھر شکست کا سامنا

دارالعوام میں بریگزٹ کی حمایت میں 299 جبکہ معاہدے کے بغیر بریگزٹ کے خلاف 327 ووٹ ملے۔

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کو ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا جب حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے کچھ باغی ارکان اور حزب اختلاف نے قانون پاس کردیا جس کے تحت وزیراعظم بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار نہیں کرسکیں گے۔

دارالعوام میں بریگزٹ کی حمایت میں 299 جبکہ معاہدے کے بغیر بریگزٹ کے خلاف 327 ووٹ ملے۔

مزیدپڑھیں: برطانیہ کے وزیر اعظم کی دوڑ، پہلے مرحلے میں بورس جانسن کامیاب

وزیراعظم کو مذکورہ ناکامی پر بریگزٹ معاہدے کو مزید 3 ماہ کی توسیع مل گئی۔

واضح رہے کہ اگلے مرحلے میں ہاؤس آف لارڈز بل کا جائزہ لے گا تاہم بل کی منظوری میں چند دن ہی باقی بچے ہیں کیونکہ بورس جانسن اگلے ہفتے پارلیمنٹ معطل کر دیں گے۔

15 اکتوبر کو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ

خیال رہے کہ ووٹنگ سے قبل یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر دارالعوام میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانس نے 15 اکتوبر کو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کردیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بورس جانس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ بریگزٹ کی مقررہ تاریخ 31 اکتوبر میں توسیع نہیں ہوگی اور ساتھ ہی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کو 15 اکتوبر کے انتخابات کے لیے آمادگی پر چیلنج بھی کردیا۔

برطانوی وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ’کیا میں اپوزیشن رہنما کو تصدیق کے لیے مدعو کروں کہ اگر ’پسپائی‘ پر مشتمل بل منظور ہوا تو وہ عوام کو 15 اکتوبر کو انتخابات سے متعلق اپنی رائے دینے کا موقع دیں گے۔

مزید پڑھیں: ملکہ برطانیہ نے پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی

بورس جانس نے کہا تھا کہ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ یورپی یونین سے 17 اکتوبر تک بریگزٹ معاہدہ حاصل کر لیا جائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کی مثبت پیش رفت ہے اور وہ آئرش بارڈر سے متعلق تنازع کو دور کرنے میں کامیاب ہوگی۔

برطانوی وزیر اعظم کو اس وقت دھچکا لگا تھا جب گزشتہ روز ان کی پارٹی رکن منحرف ہو کر یورپی یونین نواز لبرل ڈیموکریٹس سے جاملیں اور بورس جانسن پارلیمنٹ میں بریگزٹ پر اکثریت سے محروم ہوگئے تھے۔

جس وقت بورس جانسن اپنی بات کر رہے تھے تب کنزرویٹو پارٹی کی فلپ لی فلور عبور کرکے حزب اختلاف کی جانب چلی گئیں۔

انہوں نے اپنے استعفے میں کہا تھا کہ بریگزٹ کے نتیجے میں کنزرویٹو پارٹی انگریز قوم پرستی اور مقبولیت کے مرض میں مبتلا ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین اور برطانیہ میں طلاق، نان و نفقہ پر جھگڑا، کس کو کتنا خسارہ؟

برطانوی پارلیمنٹ معطل

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ دوم نے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر وزیراعظم بورس جونسن کی درخواست پر پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

وزیر اعظم کے فیصلے کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی منظوری کے بعد ستمبر کے دوسرے ہفتے میں پارلیمنٹ معطل کردی جائے گی اور 5 ہفتوں بعد ملکہ ایلزبتھ دوم 14 اکتوبر کو تقریر کریں گی، تاہم اب نئی صورت حال سامنے آگئی ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم تھریسا مے کو بریگزٹ معاملات میں ناکامی پر اپنے منصب سے استعفیٰ دینا پڑا تھا جس کے بعد بورس جانسن برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے تھے۔