مراکش: 'اسقاط حمل' پر خاتون صحافی گرفتار
شمالی افریقہ کے ملک مراکش میں معروف صحافتی ادارے کی خاتون کو اسقاط حمل پر گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا گیا۔
مراکش میں اسقاط حمل غیر قانونی ہے اور اس میں ملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
مراکش میں اس وقت ہی اسقاط حمل کی اجازت دی جاتی ہے جب ماں کی زندگی یا پیٹ میں پلنے والے بچے کی صحت کے حوالے سے کوئی پیچیدگی ہو۔
شمالی افریقہ کے ملک میں ’ریپ‘ اور ناجائز جنسی تعلقات کے بعد ہونے والے حمل کو ضائع کروانا بھی غیر قانونی ہے اور 'ابارشن' کرنے والے ڈاکٹرز اور افراد کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
مراکش کی اسمبلی نے 2016 میں اسقاط حمل سے متعلق ایک نئے بل کا مسودہ تیار کیا تھا، جس کے تحت ’ریپ‘ اور ’ناجائز جنسی تعلقات‘ کے بعد ہونے والے حمل کو شواہد پیش کیے جانے کے بعد ضائع کرنے کی قانونی اجازت ہوگی، تاہم اس بل پر تاحال قانون سازی نہیں ہوسکی۔
مراکش کے ’الیوم اخبار‘ کے ویب سائٹ ’الیوم 24‘ کے مطابق خاتون صحافی ھاجر الریسونی کو پولیس اہلکاروں نے اسقاط حمل کرانے کے الزام میں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ قائم کردیا۔
خاتون صحافی کا تعلق بھی ’الیوم‘ اخبار سے تھا اور اسی ادارے کی جانب سے ھاجر الریسونی کو قانونی مدد بھی فراہم کی گئی۔
خاتون صحافی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت میں جمع کرائے گئے دستاویزات میں بتایا کہ ھاجر الریسونی کے خلاف اسقاط حمل کے الزامات کے واضح ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
خاتون صحافی کا مقدمہ لڑنے والی ٹیم کے مطابق ھاجر الریسونی کے خلاف لگائے گئے الزامات کے حوالے سے عدالت میں پیش کیے گئے ثبوتوں میں اسقاط حمل کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔