نقطہ نظر پلاسٹک سے جان چھڑانے میں مجھے ہفتہ لگا، لیکن میں کامیاب ہوگئی! میں نے اب سودے کیلئے کپڑے کے تھیلے، سبزی اور پھلوں کیلئے نیٹ کی تھیلی اور مائع چیزوں کیلئے برتن کا استعمال شروع کردیا ہے ماہا قاسم لکھاری کنسلٹنٹ برائے ماحولیاتی و سماجی اثرات ہیں۔ وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے ملکی دارالحکومت میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری، تجارت اور فروخت پر عائد حالیہ پابندی جشنِ آزادی کا ایک بڑا ہی خوش آئند تحفہ ہے۔ پابندی کے لفظی و عملی نفاذ سے اسلام آباد میں پلاسٹک آلودگی میں کمی لانے میں زبردست حد تک مدد ملے گی۔1960ء کی دہائی میں پہلی بار متعارف کروائی جانے والی پولی تھین تھیلیاں آج ندی نالوں اور جنگلی حیات کا گلہ گھونٹ رہی ہیں، درختوں سے لپٹی ہوئی ہیں، اور شہری مراکز کے اندر اور باہر کچرا کنڈیوں میں جمع ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں، پرندے اور کچھوے غلطی سے پلاسٹک کی تھیلیاں کھالینے کے باعث مرجاتے ہیں یا پھر جالوں، پیکنگ بینڈز اور دیگر اشیاء میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کو مکمل طور پر گلنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ اس پلاسٹک کے نتیجے میں بننے والے ‘مائیکرو پلاسٹکس‘ پینے لائق پانی کے ذرائع میں شامل ہوجاتے ہیں اور ان ذرات کا جانوروں کے ٹشو میں جم جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ جہاں تک تعلق انسانوں کا ہے تو پلاسٹک کے ان ذرات کو کینسر، بانجھ پن، ہارمونز کے عدم توازن اور پیدائشی نقائص سے منسلک کیا گیا ہے۔ پلاسٹک پر پابندی کا اطلاق خاص طور پر ان تمام ایک بار استعمال ہونے والی پولی تھین تھیلیوں پر ہوگا جو عام طور پر سودا سلف اور دیگر سامان لانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ دکانداروں کو اب یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ گاہکوں کو خریدا ہوا سامان پلاسٹک کی تھیلیوں میں دیں۔ ابتدائی طور پر تو مجھے لگا کہ اس پابندی کا کچھ خاطر خواہ فائدہ شاید نہ ہو۔ میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ آیا حکومت اس پابندی کا مؤثر انداز میں اطلاق کرپائے گی بھی یا نہیں؟ لیکن مجھے خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کام پوری سنجیدگی کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھا۔ خریداری کے حوالے سے مشہور علاقوں میں ایک بھی پلاسٹک کی تھیلی نظر نہیں آئی۔ یہ شاپنگ بیگز اس حد تک ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں رچ بس گئے تھے کہ اس پابندی کا عادی بننے میں مجھے ایک ہفتہ لگ گیا۔ صورتحال ہمیشہ سے ایسی نہیں رہی۔1990 کی دہائی کی ابتدا میں میرا بچپن کراچی میں گزرا، جہاں اکثر میں اپنی دادی کے ہمراہ گھر کا سودا سلف خریدنے جایا کرتی تھی۔ ان کے پاس بُنے ہوئے تنکوں سے بنی مخصوص ٹوکری ہوا کرتی تھی اور یہ مکمل طور پر بائیو ڈی گریڈ ایبل بھی تھی۔ وہ اپنے ساتھ سامان کی فہرست لے جاتیں اور تیل کے بڑے ٹن، شکر، چاول، آٹے اور چائے کے بڑے پیک و دیگر سامان تھوک کے حساب خریدا کرتیں۔ گھر پہنچنے پر وہ یہ سامان چھوٹی برنیوں میں منتقل کردیتیں۔پہلے سے پوری پلاننگ کرنے کے باعث انہیں نہ صرف سامان کی پیکجنگ میں کٹوتی ہوتی بلکہ انہیں بار بار سامان لانے کے لیے دکان پر نہیں جانا پڑتا تھا، یوں ایندھن کی کھپت کم ہوتی اور ان کے حصے کا آلودگی کا پھیلاؤ بھی محدود ہوجاتا تھا۔ جب سے پابندی نافذ کی گئی ہے، تب سے میں اس طرح کے کئی عوامل کی پیروی کر رہی ہوں اور خریداری سے متعلق اپنے تجربے کے بارے میں زیادہ غور و فکر کرنے لگی ہوں۔ میں نے اپنی گاڑی میں سودے کے سامان کے لیے کپڑے کے تھیلے رکھے ہیں، اس کے علاوہ سبزی اور پھلوں کے لیے نیٹ کی تھیلی رکھی جبکہ دہی اور دودھ جیسی مائع چیزوں کے لیے برتن رکھے ہیں۔ میں اپنی روز مرہ کی زندگی میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال میں ڈرامائی کمی محسوس کر رہی ہوں۔تاہم چند شہریوں کے نزدیک پلاسٹک کی تھیلیوں پر لگائی جانے والی اچانک پابندی فضول اور غیر اہم اقدام ہے۔ آخر کیوں اس چیز پر پابندی لگائی جائے جو آسانی پیدا کرتی ہو اور جس کی اتنی زیادہ افادیت ہو؟ ایک اوسط صارف کی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے ’کلین اینڈ گرین پاکستان‘ کی صفائی مہم کے ایک حصے کے طور پر حکومت کو مؤثر میڈیا مہم چلانا ہوگی تاکہ پلاسٹک کی تھیلیوں سے ماحولیات اور صحت کو لاحق ہونے والے خطرات سے آگاہی پھیلائی جاسکے۔بانس سے بنی ٹوکریوں یا بار بار استعمال ہونے والے ماحول دوست تھیلوں کی دستیابی کے بارے میں بلاواسطہ رابطے، اور پلاسٹک پر پابندی پر پورا اترنے پر کچھ نہ کچھ صلہ یا ری وارڈ دینے سے شہریوں میں بڑے پیمانے پر اس اسکیم کی قبولیت بڑھے گی۔پلاسٹک ماحول کے لیے کیوں خراب ہے، اس حوالے سے اگر اسکولوں اور کالجوں میں تعلیمی مہم بھی ساتھ ساتھ چلائی جائے تو اس طرح بچوں اور نوجوانوں کو ماحول کا خیال رکھنے اور صاف ستھرائی کے کلچر کو اپنانے کی ترغیب حاصل ہوگی۔ جہاں یہ ایک بڑی خوش آئند بات ہے کہ حکومت پلاسٹک کے کوڑے پر پابندی عائد کرنے کے لیے قوانین منظور کر رہی ہے وہیں لوگوں کو قابلِ عمل ماحول دوست متبادل مصنوعات کی تعلیم سے آراستہ کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ ماحول دوست بنے رہیں اور انجانے میں ماحول کے لیے مزید بگاڑ کا باعث نہ بن رہے ہوں۔ مثلاً، اسٹائروفوم کے ڈبے ماحول کے لیے پلاسٹک جتنے ہی بُرے ہیں، جبکہ کاغذی تھیلیاں درختوں سے بنتی ہیں اور ان کا ایک سے زائد بار استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا۔پٹ سن، کاٹن یا ہیوی ڈیوٹی مٹیریل سے بنی تھیلیاں دیرپا استعمال کی صلاحیت رکھتی ہیں، جبکہ بانس یا بید کی ٹہنیوں سے بنی ٹوکریاں مکمل طور پر بائیوڈی گریڈ ایبل ہیں اور اس وجہ سے ماحول دوست آپشن بھی قرار پاتی ہیں۔پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کو محدود کرنے کے لیے عالمی سطح پر مہم زور پکڑ رہی ہے۔ کئی ممالک پہلے ہی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کرچکے ہیں یا پھر پلاسٹک کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی غرض سے بھاری جرمانے نافذ کرچکے ہیں۔ روزمرہ کی خریداری میں پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ترک کرکے ہم میں سے ہر ایک اپنے حصے کا پلاسٹک کوڑا محدود کرنے کی جانب پہلا مفید قدم ثابت ہوگا۔ اسلام آباد میں پلاسٹک پر پابندی کا نفاذ مؤثر ثابت ہوجانے کے بعد اس کا دائرہ آہستہ آہستہ دیگر صوبوں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے اور تھیلیوں کے ساتھ پلاسٹک کی بوتلوں، کٹلری اور مشروب پینے والے اسٹرا جیسی صرف ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی چیزوں پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔یہ مضمون 3 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ ماہا قاسم لکھاری کنسلٹنٹ برائے ماحولیاتی و سماجی اثرات ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔