نقطہ نظر

ہنسیے کہ کراچی کا مذاق اڑایا گیا ہے!

ہم تب تک اس ڈرامے سے لطف اٹھاتے رہے جب تک یہ اندازہ نہ ہوگیا کہ یہاں تماشا کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارا ہی بنایا جا رہا ہے
لکھاری صحافی ہیں۔

کراچی والے اکثر اس بات پر افسردہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس ساحلِ سمندر کے سوا گھومنے پھرنے کی کوئی قابلِ ذکر جگہیں ہی نہیں ہیں۔ لیکن اس افسردگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ شب گرفتہ لوگ اس خفیہ تفریحی مقام سے اب تک بے خبر ہیں جسے جام چکرو کہتے ہیں۔

500 ایکڑ پر محیط جام چکرو پہاڑوں، دھند اور حیرت میں ڈال دینے والی اس جنگلی حیات کا گھر ہے جو انسانوں سے بالکل بھی خائف نہیں! ہاں لیکن یہ پہاڑ کوڑے کے بنے ہوئے ہیں اور یہ دھند سلگتے ہوئے کچرے سے بنتی ہے۔

یہ مقام بھی کیا قاتلانہ ہے، جناب ہم یہاں حقیقی قتل کی ہی بات کر رہے ہیں کیونکہ یہاں ناک سے سانس لیں تو ناقابلِ برداشت سڑاند نتھنوں سے ٹکرا رہی ہوتی ہے، اور اگر منہ سے سانس لینے کی کوشش کی جائے تو جہنمی پھولوں کی پتیوں کی مانند جام چکرو کی ہواؤں میں تیرتی لاتعداد مکھیوں میں سے درجن بھر کے منہ میں جانے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔

چلیے اب تھوڑی بات کی جائے جنگلی حیات کی، تو جناب اگر آپ اس مقام کا تھوڑا گہرائی سے جائزہ لیں تو آپ کو یہاں چوہوں اور لال بیگوں کی بسی بسائی کالونیاں مل جائیں گی جو مقامی رہائشیوں کے ساتھ بھرپور ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں، وہی مقامی جو ان کوڑے کرکٹ میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو انہی پہاڑوں پر رہتے ہیں، کھانا پکاتے اور کھاتے ہیں۔

آپ نے شاید جام چکرو کبھی نہیں دیکھا ہوگا اور کبھی دیکھنا چاہیں گے بھی نہیں۔ لیکن اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ہر وہ چیز جسے آپ نے چھوا، استعمال کیا اور پھر پھینک دیا وہ کسی نہ کسی شکل و صورت آخر میں اسی جگہ پہنچی ہے، کیونکہ جام چکرو ہی کراچی کے زیادہ تر کوڑے کرکٹ کی آخری منزل قرار پاتا ہے۔

جام چکرو میں کام کا سلسلہ ہر وقت اپنے عروج پر رہتا ہے، یہاں سیکڑوں ٹرک ہر روز 7 ہزار ٹن کچرہ پھینک جاتے ہیں، اس کے علاوہ شہر کا 2 ہزار ٹن کچرہ گونڈ پاس کے ایک دوسرے لینڈ فل سائٹ میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

اس کے بعد کراچی کی گلیوں میں کتنا کوڑا کرکٹ پڑا رہ جاتا ہے؟

ہم اس بارے میں لاعلم ہیں کیونکہ ہمیں یہ پتا ہی نہیں ہے کہ کراچی میں روزانہ کتنا کچرہ پیدا ہوتا ہے، البتہ مقدار کے حوالے سے کھلے گٹر میں منڈلا رہی پلاسٹک کی تھیلیوں کی طرح متعدد اندازے سننے کو ملتے ہیں: عالمی بینک کی رپورٹ دعوٰی کرتی ہے کہ کراچی میں روزانہ 12 ہزار ٹن میونسپل ٹھوس کچرہ پیدا ہوتا ہے، جبکہ دیگر ذرائع یہ مقدار 15 ہزار ٹن تک بتاتے ہیں۔

اس کے بعد ٹھوس کوڑے کا سوال پیدا ہوتا ہے (جس کا میونسپل کوڑا تو محض ایک حصہ ہے) اور روزانہ کی مقدار 20 ہزار ٹن سے زائد ہوسکتی ہے۔

میں آپ کو میونسپل کوڑے اور ٹھوس کوڑے کے درمیان فرق کی تفصیلات سے بور نہیں کروں گا، ہائے لیکن کیا کریں تفصیلات کے بغیر مسئلے کی جڑ معلوم نہیں ہوسکتی۔ اور مسئلے کی جڑ ہے تقسیم اور پیچیدگیوں کی شکار کراچی انتظامیہ۔

کیونکہ کوڑا چاہے کتنا ہی پیدا کیوں نہ ہوتا ہو، حقیقت یہی ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ گلیوں اور سڑکوں پر ہی پڑا رہتا ہے، جس کے باعث پھر نالیوں کی بندش کا مسئلہ درپیش آتا ہے اور شہری فضا کو ایک نئی بُو اور نظارے میں نئی رنگت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی بڑی حد تک وجہ یہ ہے کہ ایسا کوئی ایک بھی سرکاری ادارہ دکھائی نہیں دیتا جو کوڑے کو اٹھانے کا ذمہ دار ہو۔

ہاں کاغذی طور پر تو اس کام کی ذمہ داری سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) پر عائد ہوتی ہے مگر عملی طور پر یہ کام میزبان اداروں سے لیا جاتا ہے جو آپس میں کسی مربوط نظام کے تحت کام ہی نہیں کرتے۔ کینٹونمنٹ بورڈز اپنی مرضی کے مالک ہیں، اسی طرح ضلعی میونسپل کارپوریشن نے اپنی دنیا بسائی ہوئی ہے۔

اور پھر کچھ سیاسی دنیا کی مہربانیاں ہیں، جہاں سرکاری محکمہ جات کی آپس میں نہیں بنتی کیونکہ وہ جن سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتی ہیں اور یوں یہ کھیل مزاحیہ ڈراموں کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

مصطفیٰ کمال اور میئر کراچی وسیم اختر کے درمیان ہونے والے کوڑا پھینکی کے حالیہ مقابلے کو ہی لیجیے، جس کے نتیجے میں تاریخ کی سب سے قلیل المدت تقرریاں ہوئیں۔ مقابلہ ایسا کہ آنکھ جھپکنا بھی محال، 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں مصطفیٰ کمال پراجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج بنادیے گئے اور پھر اتار بھی دیے گئے۔ ہم سب تب تک اس ڈرامے سے بھرپور لطف اٹھاتے رہے جب تک کہ یہ اندازہ نہ ہوگیا کہ یہاں تماشا کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارا ہی بنایا جا رہا ہے۔

پھر صورتحال بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔ جہاں ٹھوس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری ایس ایس ڈبلیو ایم پر عائد ہوتی ہے، وہیں کراچی ویسٹ واٹر اینڈ سیورج بورڈ کے ذمے گٹروں کی صفائی کا کام آتا ہے جبکہ اسٹورم واٹر ڈرینز کراچی میٹروپولٹن کارپوریشن کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تو جناب اس سے فرق یہ پڑتا ہے کہ ٹھوس کوڑا بہہ کر نالیوں میں آجاتا ہے جس کے باعث شہری سیلاب جیسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جس کا سامنا شہریوں نے حالیہ دنوں میں کیا۔ چنانچہ منطق پسند دنیا میں ان دونوں کا ذمہ ایک ہی محکمے کے پاس ہونا چاہیے۔

قیصر بنگالی کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بھی اس پورے الجھے نظام کا ایک حصہ ہے۔ کیونکہ ان کی انتہائی نااہلی/ زر پرستی کی وجہ سے ان جگہوں پر بھی لوگ 6، 6 منزلہ عمارتیں کھڑی کر رہے ہیں جہاں ایک سے دو منزلہ عمارتیں بنانے کی اجازت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پلاٹ پر حقیقی گنجائش کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ لوگ رہائش پذیر ہیں یوں پہلے سے ٹوٹے پھوٹے نظام کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

ان مسائل کے حل دستیاب ہیں اور ہمیشہ سے دستیاب رہے ہیں۔ کوڑے سے توانائی بنانے کے طریقہ کار (Waste-to-power) پوری دنیا میں اپنایا جا رہا ہے اور سوئیڈن تو ری سائیکلنگ کے عمل میں اس حد تک آگے نکل چکا ہے کہ کوڑا باہر سے منگوا کر اسے توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ ارجنٹینا میں قانون سازی کے ایک عمل کی مدد سے کوڑا اٹھانے والوں نے ایک کوآپریٹو نظام تشکیل دیا ہے جس نے ان کے غیر یقینی سے بھرے کام کو ایک حقیقی ری سائیکلنگ بزنس میں تبدیل کردیا ہے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں لاپرواہی کے ساتھ کوڑا پھینکنا بند کرنا ہوگا۔

مکھیوں کی بھنبناہٹ شدید تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن دل کے خوش رکھنے کو یہی سمجھ لیجیے کہ یہ بھنبھاہٹ نہیں ہنسی کی آوازیں ہیں، اور کیوں نہ ہو، ہمارا مذاق جو اڑایا گیا ہے۔ کراچی کا مذاق اڑایا گیا ہے۔


یہ مضمون 2 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔