لائف اسٹائل ’جو خاتون بچے پیدا نہیں کر سکتی، وہ قوم کی کیا خدمت کرے گی؟‘ جنوبی کورین رکن اسمبلی کی جانب سے غیر شادی شدہ خاتون کے لیے نامناسب جملے کہے جانے پر لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ویب ڈیسک جو سونگ واک تاحال غیر شادی شدہ ہیں اور انہیں ایک اہم ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے—فوٹو: یون ہپ نیوز ایجنسی جنوبی کوریا کے سینئر رکن اسمبلی کو اقتصادی ادارے کی سربراہ خاتون کے خلاف نامناسب زبان استعمال کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جنوبی کوریا کے 5 ویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہونے والے رہنما نے اقتصادی ادارے کی نو منتخب غیر شادی شدہ خاتون سربراہ کے لیے کہا تھا کہ ’جو خاتون بچے پیدا نہیں کرسکتی، وہ قوم و ملک کی کیا خدمت کرے گی؟‘ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے اپنی رپورٹ میں جنوبی کورین نیوز ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے جو سونگ واک کو اقتصادی ادارے ’فیئر ٹریڈ کمیشن‘ کا سربراہ منتخب کیا تھا جس پر رکن اسمبلی نے تنقید کی۔غیر شادی شدہ اکنامکس کی پروفیسر خاتون کو اقتصادی ادارے کا سربراہ منتخب کیے جانے کے بعد رکن اسمبلی جیونگ کب یون نے ان کے لیے نامناسب اور جنسی تفریق پر مبنی تبصرہ کیا تھا۔جیونگ کب یون کا کہنا تھا کہ ایک ایسی خاتون کو ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے جس نے تاحال بچے کو جنم دے کر قوم کے لیے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ جو سونگ واک سیول نیشنل یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھا چکی ہیں—فوٹو: سیول یونیورسٹی رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ جو خاتون بچے پیدا نہ کرکے قومیت کا فرض ادا نہیں کر سکتی، وہ ادارہ کیسے چلائے گی؟رکن اسمبلی نے غیر شادہ شدہ خاتون کو فیئر ٹریڈ کمیشن کا سربراہ مقرر کیے جانے کے بعد مزید کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ اکنامکس کی پروفیسر تاحال کنواری ہیں اور جنوبی کوریا کی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔ان کے مطابق اگرچہ خاتون کے پاس اچھا تجربہ اور اچھی سی وی ہے، تاہم انہوں نے قوم کی خدمت کرنے کی ڈیوٹی تاحال ادا نہیں کی۔رکن اسمبلی کی جانب سے اپنے خلاف صنفی تفریق پر مبنی بیان دیے جانے کے باوجود تاحال جو سونگ واک نے کوئی بیان نہیں دیا اور انہوں نے فیئر ٹریڈ کمیشن کے سربراہ کتے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔تاہم خاتون کو بچہ پیدا نہ کرنے اور تاحال شادی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر جنوبی کوریا کے عوام نے رکن اسمبلی پر شدید تنقید کی اور سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں نے ان کے بیانات کو جنسی تفریق پر مبنی قرار دیا۔رکن اسمبلی نے جس خاتون پر تنقید کی اگرچہ وہ 45 سال سے زائد عمر کی ہیں، تاہم تاحال انہوں نے شادی نہیں کی اور وہ ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں اکنامکس کی تعلیم دیتی رہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا میں خواتین، بچوں سے زیادہ ملازمتوں کو اہمیت دیتی ہیں—فوٹو: اے ایف پی جنوبی کوریا میں جہاں معاشی و اقتصادی ترقی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہیں بچوں کی شرح پیدائش ہر گزرتے سال کم ہوتی جا رہی ہے۔اس وقت بھی جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے کم بچے پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور حکومت بچوں کی پیدائش میں اضافے کے حوالے سے مختلف منصوبوں پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ بھی کرتی ہے۔جنوبی کوریا کی زیادہ تر نوجوان خواتین اور مرد ملازمتوں اور بہتر مستقبل بنانے کے چکر میں شادی کو اہمیت نہیں دیتے اور اگر کوئی جوڑا شادی کر بھی لیتا ہے تو خواتین اپنا کیریئر مشکل میں ڈالنے کے خیال سے بچوں کو جنم نہیں دیتیں۔جنوبی کوریا میں ٹیکنالوجی، اقتصادی و معاشی ترقی کے باوجود والدین اور خصوصی طور پر خواتین بچوں کی تعلیم و مستقبل میں اچھی ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے فکرمند دکھائی دیتی ہیں اور اسی وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ خواتین بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔جنوبی کوریا میں جہاں بچوں کی شرح پیدائش کم ترین سطح پر ہے، وہیں اس ملک کو مشرقی ایشیا میں سب سے زیادہ طلاقیں دینے والے ملک کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ حکومت بچوں کی شرح پیدائش بڑھانے کے منصوبوں پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے—فوٹو: رائٹرز