افسانہ: سڑک اور تنہائی

’نہ سڑکیں ختم ہوتی ہیں نہ تنہائی، بس آدمی ختم ہوجاتا ہے’، آدھی رات کو سڑک پر چلتے ہوئے اس نے سوچا۔
‘دیکھیں! مجھے آپ سے محبت نہیں ہے’، بیوی کے کہے لفظ اس کے دماغ میں گونج رہے تھے۔
‘لیکن میں تمہارا شوہر ہوں’، اس نے بیوی کو یاد دلانے کی کوشش کی۔
‘اس سے کیا ہوتا ہے؟ محبت نہ ہو تو کچھ نہیں ہوتا’۔
شادی کی پہلی رات بھلا کوئی ایسی بات کرتا ہے جو اس کی بیوی نے کی تھی۔ وہ گھبرا کر کمرے سے نکلا اور برآمدے میں چلنے لگا۔ سب مہمان سو رہے تھے، وہ گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر باہر سڑک پر آگیا۔
‘سڑک میری پیاری سڑک، تم نہ ہوتی تو میں کس قدر تنہا ہوجاتا۔’
وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور ایک نجی فرم میں نوکری کرتا تھا جہاں اس کی تنخواہ بہت کم تھی۔
‘اس سے گھر نہیں چلے گا، دیکھو تم گھر کے بڑے ہو، تم نے 5 بہنوں کی شادی کرنی ہے، بھائی کو پڑھانا ہے، ابّا نے جو قرض لیا تھا وہ واپس کرنا ہے، گھر بنوانا ہے، اس تنخواہ سے تو کچھ نہیں ہوگا’، وہ روز یہ باتیں سنتا تو پریشان ہوجاتا اور زیادہ سے زیادہ روپے کمانے کے منصوبے بناتا رہتا۔
25 سال کی عمر میں وہ بیرونِ ملک چلا گیا اور پھر اس نے بڑا بن کر دکھایا بھی تھا۔ 25 سے 45 سال تک اس نے خود کو ایک مشین میں ڈھال لیا تھا، اس نے نہیں سوچا کہ اس کی اپنی بھی ایک زندگی ہے۔ وہ جس دن بیمار بھی ہوتا تو کام پر جاتا کہ اس کے سامنے فرائض کا ایک پہاڑ کھڑا تھا جسے آخر کار اس نے دن رات ایک کرکے 20 سال میں سر کرلیا تھا۔
سب بہنوں کی دھوم دھام سے شادی کی، اس کا چھوٹا بھائی انجینئر بن گیا اور 2 سال قبل وہ بھی اپنی پسند کی شادی کرکے دوسرے شہر چلا گیا۔ 20 سال بعد وہ اپنے ملک واپس لوٹ آیا جہاں آگے فقط ایک خالی مکان تھا جو اس کا اپنا تھا جس میں اب وہ تنہا زندگی گزار رہا تھا۔جلد ہی اسے ایک کمپنی میں نوکری مل گئی تھی۔
اس کی بہنیں اسے فون کرتیں تو کہتیں ‘بھیّا اب شادی کرلیں کب تک اکیلے گھر میں رہیں گے اور اب تو آپ پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں’، وہ یہ باتیں سنتا اور سوچتا کہ بھلا اب وہ اس بات کا کیا جواب دے۔ اسے یہ فرمائش بہت دُور سے آتی کوئی آواز معلوم ہوتی، عموماً وہ کہتا‘اب بھلا اس عمر میں کیا شادی کروں؟’
‘ابھی آپ کون سا بوڑھے ہوگئے ہیں؟ 45 سال تو کوئی عمر نہیں ہوتی’۔
لیکن کئی روز سے اس کے اندر ایک عجیب سی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، وہ دفتر سے گھر لوٹتا تو ایک بے پناہ اداسی کی لہر اس کا دامن پکڑ لیتی، وہ جلدی جلدی رات کا کھانا کھاتا اور سڑک پر آکر ٹہلنا شروع کردیتا اور گزشتہ زندگی کے بارے سوچنے لگ جاتا جو اتنی ہی تنہا تھی جتنی کہ یہ سڑک۔ سڑک پر تو پھر بھی کبھی کبھار کوئی نہ کوئی گزرتا ہی رہتا تھا لیکن اس کی زندگی تو بالکل خالی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ بس ساری رات سڑک پر چلتا رہے اور کبھی اپنے مکان پر لوٹ کر نہ جائے۔
پہلے پہل یہ کیفیت تھوڑی دیر تک کے لیے رہتی پھر وہ ٹھیک ہوجاتا لیکن اب تنہائی اور اداسی کا دورانیہ بڑھ گیا تھا۔ وہ کسی محفل میں بھی ہوتا تو خود کو مکمل طور پر تنہا محسوس کرتا تھا۔ کبھی کبھار راتوں کو بستر پر بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتا۔ اسے سمجھ نہ آتی کہ آخر اسے ہو کیا گیا ہے۔ وہ تنہائی کے اس لامحدود سمندر میں اپنے زندہ رہنے کا جواز ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کے حصے میں جو ذمہ داریاں تھیں ان سب سے وہ سبکدوش ہوچکا تھا، تو اب وہ کیوں کر زندہ رہے؟
ماضی میں جب کبھی بھی اس کے دل پر کسی نے دستک دی تو اس نے یہ کہہ کر دل کو سمجھا لیا کہ اس کے کاندھوں پر ابھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں وہ بھلا اپنے بارے میں کیسے سوچ سکتا تھا۔ لیکن اب کچھ عرصے سے اس کے اندر ایک خلا سا پیدا ہوگیا تھا۔ خالی سڑک پر جب وہ خود سے باتیں کرتے ہوئے گزر رہا ہوتا تو اسے اپنی آواز بازگشت کی طرح سنائی دیتی تھی۔ ایک روز وہ گھبرا کر ماہرِ نفسیات کے پاس چلا گیا۔
‘معلوم نہیں میں آپ کو کیسے سمجھاؤں یا شاید میرے پاس مناسب الفاظ نہیں، ڈاکٹر صاحب یہاں اندر ایک عجیب خلا سا ہے’، اس نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔
‘آپ رات کو کتنی دیر سوتے ہیں؟’ ڈاکٹر نے پوچھا۔
‘ایک دو سال پہلے تو میں 7، 8 گھنٹے سو لیتا تھا لیکن اب بہت کم سوتا ہوں، آخر آدمی سڑک پر سو تو نہیں سکتا’۔
‘کیا مطلب سڑک پر، کیا آپ کا گھر نہیں ہے؟’ ڈاکٹر نے حیرانی سے پوچھا۔
‘جی جی بالکل میرا گھر ہے لیکن مجھے اب اپنے کمرے سے وحشت سی ہوگئی ہے، میں ساری رات سڑک پر چلتا رہتا ہوں، کوئی اداسی سی ہے، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر مجھے کیا ہوگیا ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا ڈاکٹرصاحب؟’
‘جی جی، میں سمجھ رہا ہوں، دراصل آپ کو آرام اور نیند کی سخت ضرورت ہے’، ڈاکٹر نے اس کے لیے نیند کی دوا تجویز کی جسے وہ گھنٹوں ہاتھ میں لیے بیٹھا رہتا کہ کھانی چاہیے یا نہیں اور پھر تنگ آکر باہر سڑک پر نکل آتا۔
‘مجھے شادی کرلینی چاہیے، شاید مجھے کسی کی محبت کی ضرورت ہے۔ ایک محبت جو اس خلا کو پُر کردے’، وہ بہت سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا۔
اب کی بار جب اس کی بہن نے اس کے رشتے کی بات کی تو اس نے کہا ‘بھئی کوئی رشتہ لاؤ تو میں فیصلہ کروں نا’۔
‘ارے واہ۔ آپ کے لیے کوئی لڑکیوں کی کمی ہے، بلکہ ایک رشتہ تو میری نظر میں پہلے ہی سے ہے، میرے شوہر کی پھپھو کی بیٹی ہے وہ آج کل اس کے رشتے کے لیے پریشان ہیں، ایک منٹ ٹھہریے، میں موبائل سے آپ کو اس کی تصویر بھیجتی ہوں’۔
‘تصویر رہنے دو، اب اس عمر میں مجھے شکل و صورت کی پَروا نہیں، تم رشتے کی بات کرو اگر انہیں میری عمر اور مالی حیثیت پر کوئی اعتراض نہ ہو تو میری طرف سے ہاں ہے’۔
لڑکی والوں نے بھی فوراً ہاں کہہ دی تھی۔
ایک ماہ بعد اس کی شادی کی تاریخ طے پائی، اس عرصے کے دوران بھی وہ رات بھر سڑک پر پھرتا رہتا تھا۔
خالی بستر اور تنہا مکان سے زیادہ اداس کچھ بھی نہیں ہوتا، سو وہ سڑک کی جانب دوڑتا۔
‘آپ ٹھیک ہیں’، اس نے بات کا آغاز کیا۔
‘مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے’۔
‘ہاں ہاں کہیے، اس میں بھلا اجازت کی کیا بات ہے’، مدت بعد اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا تھا۔
‘دیکھیں! مجھے آپ سے محبت نہیں ہے’، اس کی بیوی نے کہا۔
‘اس سے کیا ہوتا ہے، محبت نہ ہو تو کچھ نہیں ہوتا’، اس کی بیوی نے کہا۔
‘محبت ایسے تھوڑی ہوتی ہے’، اس کی بیوی نے جواب دیا۔
‘تو تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟’، یہ پوچھتے ہوئے اس کی آواز میں دنیا جہان کا دکھ تھا۔
‘اِدھر آؤ، یہ کچھ نہیں کہتا’، اس کی بیوی نے نوجوان سے کہا جو کافی فاصلے پر ہی ڈرا ہوا کھڑا تھا۔
اس نے پین پکڑا اور دستخط کردیے۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔