صحت

کچھ لوگ کبھی موٹے کیوں نہیں ہوتے؟ اصل وجہ سامنے آگئی

کیا آپ نے غور کیا ہے کہ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو بہت زیادہ کھاتے ہیں مگر پھر بھی موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے؟

کیا آپ نے غور کیا ہے کہ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو بہت زیادہ کھاتے ہیں مگر پھر بھی موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟

تو سائنسدانوں نے آخرکار اس کا جواب ڈھونڈ لیا ہے۔

درحقیقت قدرتی طور پر دبلے پتلے رہنے والے افراد کا وزن اس لیے معمول پر رہتا ہے کیونکہ ان کی چربی کے خلیات جینیاتی طور پر زیادہ موثر طریقے سے کام کرتے ہیں۔

یہ بات سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق کے دوران محققین نے ایسے افراد کے گروپ کا جائزہ لیا جن کا جو دل کرتا کھاتے مگر ان کا وزن نہیں بڑھتا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ ان کے معدے میں موجود چربی کے خلیات ایسے افراد کے مقابلے میں حجم میں 50 فیصد کم اور زیادہ متحرک ہوتے ہیں، جو اوسط جسمانی وزن کے حامل ہوتے ہیں۔

نتائج سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ دبلے پتےل افراد کو جسمانی وزن کو معمول پر رکھنے کے حوالے سے دیگر لوگوں کے مقابلے میں کچھ جینیاتی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

طبی جریدے امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ پہلی بار یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اپنے جسمانی وزن کو ہمیشہ ایک سطح پر رکھنے والے افراد کو وائٹ ڈپازٹ ٹشو سے فائدہ ہوتا ہے۔

وائٹ ڈپازٹ ٹشوز جسم میں چربی سے بنتے یں اور ان میں لپڈ اسٹور ہوتا ہے جو ہماری غذا میں موجود چربی کا جز ہوتا ہے۔

نیسلے انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ سائنز کی اس تھقیق میں 30 مردوں اور خواتین رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں جن کا جسمانی وزن ہمیشہ سے ایک سطح پر رہتا تھا۔

محققین نے دیکھا کہ یہ افراد غذا بھی مناسب مقدار میں کرتے ہیں جبکہ ورزش بھی زیادہ نہیں کرتے مگر پھر بھی ان کا جسمانی وزن ایک سطح پر برقرار رہتا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ان افراد کے معدوں سے چربی کے چھوٹے ٹکڑے، خون، پیشاب اور پاخانے کے نمونے لیے گئے اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ان افراد کے چربی کے خلیات غیرمعمولی حد تک چربی گھلانے اور بنانے والے جینز کے تحت متحرک ہوتے ہیں۔

جسمانی وزن کے حوالے سے 200 سے زائد جینز اثرات مرتب کرتے ہیں اور دبلے پتلے افراد کے ایسے چربی والے خلیات عام وزن رکھنے والوں کے مقابلے میں 40 فیصد چھوٹے ہوتے ہیں۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ ایسے افراد کے یہ خلیات توانائی استعمال کرنے ک ھوالے سے بھی زیادہ متحرک ہوتے ہیں، جس کی بدولت خلیات کے بننے بگڑنے کا عمل بھی خودکار طریقے سے جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اس سے قبل رواں سال جولائی میں ایک تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں موٹاپے کی شرح 1975 کے بعد سے 3 گنا بڑھ گئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ لوگوں میں طرز زندگی کا ناقص انتخاب ہے۔

تحقیق کے مطابق زیادہ کھانا نہیں بلکہ مضر صحت غذا کا انتخاب اور زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا موٹاپے کی وبا کی اصل وجہ ہے، تاہم اس حوالے سے جینز بھی ایک کردار ضرور ادا کرتے ہیں، تاہم وہ بہت زیاد اہم نہیں۔

اس تحقیق کے دوران ایک لاکھ 19 ہزار کے قریب افراد کے جسمانی وزن اور دیگر عوامل کا جائزہ 1963 سے 2008 کے درمیان لیا گیا۔

ان افراد کو 5 گروپس میں تقسیم کیا گیا اور جینز کے ساتھ ساتھ موٹاپے کے دیگر عوامل جیسے عمر، جنس، تمباکو نوشی اور ماحولیاتی عناصر کا تجزیہ کیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ 1980 کی دہائی کے وسط اور 1990 کی دہائی کے وسط مین جسمانی وزن میں اضافے کی شرح میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔

محققین نے بتایا کہ موٹاپے میں جینز بھی کچھ کردار ادا کرتے ہیں مگر مرکزی وجہ لوگوں کا ورزش سے دوری، زیادہ وقت بیٹح کر گزارنا اور زیادہ چربی اور چینی والی غذا?ں کا استعمال ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں جسمانی وزن میں اضافہ صحت کے لیے کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوتا بلکہ پیٹ اور کمر کے ارگرد جمع ہونے والی چربی جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

موٹاپے کے نتیجے میں کچھ امراض تو فوری سامنے آجاتے ہیں جبکہ طویل المعیاد بنیادوں پر سامنے آتے ہیں۔