پاکستان

قابلِ تجدید توانائی کا پالیسی مسودہ نامکمل قرار

ماہرین نے ایسی قابلِ عمل پالیسی کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا جو واضح اہداف کے ساتھ نئی سرمایہ کاری کو متوجہ کرسکے۔

اسلام آباد: شعبہ توانائی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے قابلِ تجدید اور متبادل توانائی کے پالیسی مسودے کو نامکمل، غیر ساختہ اور متعدد قواعد سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

ان کے مطابق یہ پالیسی مسودہ قابلِ تجدید توانائی کی ترقی کے لیے روڈ میپ فراہم کرنے میں ناکام رہے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اور نجی شعبے کی توانائی کمپنیوں اور ریگولیٹرز کے سابق سربراہان پر مشتمل ماہرین، صوبائی حکومت کے نمائندوں نے وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کو خط لکھ کر ایسی قابلِ عمل پالیسی کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا جو واضح اہداف کے ساتھ نئی سرمایہ کاری کو متوجہ کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی قابل تجدید توانائی پالیسی کو جنوری تک حتمی شکل دینے کی ہدایت

ماہرین کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے تیار کی گئی حتمی دستاویز ایک مکمل پروکیورمنٹ پالیسی کے بجائے ایک تصوراتی ورکنگ مسودہ ہے، جس کی بنیاد پر اسٹیک ہولڈرز، ڈیولپرز، سرمایہ کار اور عملدرآمد کے ادارے فوری کاروباری ماڈل کے لیے وفاق کی کوششوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ان ماہرین کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس قسم کا اے آر ای پالیسی مسودہ لاگو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ غیر ساختہ، نامکمل، متعدد ریگولیشنز اور قواعد سے متصادم ہے اور شعبہ توانائی کی ترقی کے لیے واضح روڈ میپ فراہم نہیں کرسکتا‘۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ پالیسی مسودے میں بجلی گھروں کی تعمیر سے متعلق صوبوں کے حقوق الجھے ہوئے اور آئین سے ٹکراتے ہیں۔

مزید پڑھیں: مستقبل کے لیے متبادل توانائی کا حصول ناگزیر

ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت توانائی کے ذرائع کی ترقی میں صوبوں کے حصوں کے انضمام پر ریگولیٹری کنٹرول بحال کرے اور صوبے بھی انتظامی اتھارٹی کو بحال کریں تاکہ وہ اپنے خود کے وسائل کو ترقی دے سکیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مجوزہ قومی توانائی پالیسی کے تحت اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ صوبے اپنے اہداف اور مدت پر عملدرآمد کرسکیں، صوبوں کو متعدد ٹیکنالوجیز کے قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کو ترقی دینے کا ہدف دینا چاہیے۔

ماہرین نے اے آر ای پالیسی کے مسودے کی حالیہ شکل میں مخصوص پروکیورمنٹ کی ری اسٹرکچرنگ، اہداف، بزنس ماڈلز، اگریمنٹ موڈ اور مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے اسے پیش کر کے منظوری لینے سے قبل صوبوں کے ساتھ شیئر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔