بنگلہ دیشی پولیس کے ہاتھوں چوتھا روہنگیا پناہ گزین ’قتل‘
بنگلہ دیشی پولیس نے پناہ گزین کیمپ میں چوتھے روہنگیا مسلمان کو گولی مار کر ’قتل‘ کردیا گیا۔
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بنگلہ دیش کے جنوب مشرق میں حکمراں جماعت کے عہدیدار کے قتل کے بعد پرتشدد واقعات پیش آرہے ہیں۔
مزیدپڑھیں: پناہ گزین کیمپوں میں پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد قتل
واضح رہے کہ 22 اگست کو عوامی لیگ کے رکن عمر فاروق کو تکناف کے علاقے میں واقع آباد کاری میں سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا اور ہنگاموں میں 5 روہنگیا پناہ گزین بھی جاں بحق ہو گئے تھے۔
بنگلہ دیش کی پولیس نےعمر فاروق کے قتل کا الزام ’مسلح روہنگیا‘ پر عائد کیا اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 3 پناہ گزینوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
گولی مار کر کے قتل کیے جانے والے چوتھے روہنگیا پناہ گزین کی شناخت نور محمد کے نام سے ہوئی۔
بنگلہ دیش کی پولیس نے دعویٰ کیا کہ 36 سالہ نور محمد روہنگیا گینگ لیڈر تھا اور 1992 میں بنگلہ دیش پہنچا اور پہاڑیوں میں روپوش ہو کر پناہ گزین کیمپوں پر کنٹرول کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کا قتل، امریکا نے میانمار کی فوجی قیادت پر پابندی لگادی
مقامی حکام نے الزام عائد کیا کہ نور محمد منشیات اسمگلنگ کا سرغنہ تھا اور پناہ گزینوں کو میانمار سرحد پر منشیات کی ترسیل کے لیے استعمال کرتا تھا۔
پولیس کے ترجمان اقبال حسین نے بتایا کہ ’نور محمد کو عمر فاروق کے قتل میں حراست میں لیا گیا تھا اور جب ہم ملزم کو لے کر پہاڑوں میں آلہ قتل تلاش کرنے پہنچے تو اس کے ساتھیوں نے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے مسلح گروہ پر جواب فائرنگ کی اور بعد میں نور محمد کی گولی لگی لاش ملی‘۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں پہلے بھی بنگلہ دیش کی پولیس پر ماوارئے عدالت قتل کا الزام لگا چکے ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ کیمپ میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کردیے گئے۔
مزیدپڑھیں: بنگلہ دیش کے اعلان کے جواب میں روہنگیا پناہ گزینوں کا واپس لوٹنے سے انکار
دوسری جانب یورپین کمیشن نے بتایا کہ پرتشدد واقعات کے بعد متعدد پناہ گزین جیدی پورہ نقل مکانی کرگئے۔
اس ضمن میں روہنگیا لیڈر محمد نور نے بتایا کہ ’کیمپ میں ماحول کشیدہ ہے اور پناہ گزینوں میں بے چینی پائی جاتی ہے‘۔
واضح رہے کہ 2017 کے بعد سے بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم 34 روہنگیا مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں۔