پاکستان سگ گزیدگی سے کس طرح پاک ہوسکتا ہے؟
سگ گزیدگی (rabies) کتے کے کاٹنے سے ہونے والی ایک قدیم بیماری ہے۔ دنیا کا ہر شخص اس مرض سے پناہ مانگتا ہے۔ اس مرض کی علامات انتہائی خطرناک ہوتی ہیں، جن کے باعث متاثرہ شخص کھانے کی کوئی چیز نگل نہیں پاتا اور جب تک وہ ہوش میں رہتا ہے اس کا دم گھٹتا رہتا ہے، بالآخر وہ کوما میں چلا جاتا ہے اور پھر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ کتے کے کاٹنے کا نفسیاتی ٹراما انتہائی شدید ہوسکتا ہے اور ہیبت ناک موت متاثرہ شخص کے گھروالوں کے لیے شدید صدمے کا باعث بنتی ہے۔
زیادہ تر پاکستانی اب بھی ریبیز کو ’پیٹ میں لگائی جانے والے 14 ٹیکوں‘ سے منسلک کرتے ہیں۔ نرو ٹشو (Nerve Tissue) کی مدد سے بنائی جانے والی یہ کلڈ ویکسین 1910 میں تیار کی گئی تھی۔ یہ اکثر و بیشتر غیر مؤثر، دردناک اور غیر محفوظ طریقہ علاج ثابت ہوتا ہے۔ نئی، مؤثر اور محفوظ سیل کلچر سے تیار ہونے والے ٹیکوں کی آمد کے بعد عالمی ادارہ صحت نے 1984 میں نرو ٹشو ویکسین کا استعمال بند کرنے کی تجویز دی تھی۔ پاکستان 2015ء میں اس ’غریب دوست ٹیکے‘ کا استعمال بند کرنے والا تقریباً آخری ملک تھا اور اب اس کا انحصار باہر سے آنے والی اینٹی ریبیز ویکسین (اے آر وی) اور ریبیز ایمیونگلوبن (آر آئی جی) پر ہے۔
جدید سیل کلچر اے آر وی اور آر آئی جی ٹیکے متعدد یورپی ممالک، اس کے ساتھ ساتھ چین، فلپائن اور بھارت میں تیار کیے جاتے ہیں۔ بھارت کی کم از کم پانچ دوا ساز کمپنیاں زیادہ تر ان ایشیائی اور افریقی ممالک کو برآمد کرتی ہیں جہاں ریبیز کا مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کئی چینی اور فلپینی مصنوعات کا استعمال خراب اثر انگیزی کے باعث بند کردیا گیا تھا۔ یورپی مصنوعات انتہائی مہنگی ہیں اور اس غریب شخص کی استطاعت سے بالکل باہر ہیں جسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ آخری آپشن کے طور پر بھارتی مصنوعات ہی رہ جاتی ہیں۔
رواں سال کے اپریل میں بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ بھارت کے اندر بڑھتی طلب کے پیش نظر وہ تمام ممالک کو اپنی مصنوعات کی برآمدات بند کر رہے ہیں۔ یہ ان تمام ممالک کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے جہاں کتے کے کاٹنے سے متاثرہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں مریض ان جان بچانے والی مصنوعات سے محروم ہوجائیں گے۔ متعدد نئی اور ابھرتی انفیکشن کی ابھرتی بیماریوں کے باعث صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، یوں پاکستان میں ریبیز سے بڑی تباہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ہمارے پاس تقریباً ہر ہفتے ہی اندرون سندھ سےریبیز سے متاثر مریض آتے ہیں اور یہاں انڈس ہسپتال اور جے پی ایم سی میں مناسب انتظامات کی دستیابی کی وجہ سے اموات زیادہ نہیں ہوتیں۔ تاہم سپلائے کی بندش کے بعد ہمیں کئی خاندانوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے کے غم میں روتا ہوا دیکھنا پڑے گا۔
ریبیز اور ٹیکوں کی پیداوار کے حوالے سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کی بنیادی ذمہ داری نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) پر عائد ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں 25 لاکھ آوارہ کتے ہیں، ان میں سے 10 سے 15 لاکھ کتے کاٹتے ہیں، جبکہ ہر سال اے آر وی کے 8 لاکھ ڈوز مطلوب ہوتے ہیں۔ این آئی ایچ کے لیے فوری طور پر مؤثر اے آر وی اور آر آئی جی کی تیاری کے ذریعے ٹیکوں کی مُلکی طلب کو پورا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
اس بیماری کا خطرناک وائرس غیر ویکسین شدہ کتوں کے لعاب میں موجود ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت، او آئی ای اور ایف اے نے 2030ء تک بڑے پیمانے پر کتوں کی ویکسی نیشن (mass dog vaccination-MDV) اور جراحی نس بندی کے ذریعے ریبیز کے عالم گیر خاتمے کا عزم کیا ہے۔ ایک علاقے کے اندر کم از کم 70 فیصد کتوں کی ویکسی نیشن کے ذریعے بیماری کے خلاف اجتماعی قوتِ مدافعت (Herd immunity) پیدا کرکے ریبیز کا خاتمہ لایا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش، ترکی اور دیگر ممالک تعین شدہ وقت تک اس مرض کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
انڈس ہسپتال کے ریسرچ سینٹر نے ابراہیم حیدری میں جنوری 2018ء میں ایم ڈی وی اور اے بی سی کے ذریعے ’ریبیز فری کراچی‘ (آر ایف کے) کے نام سے ایک پائلٹ پروگرام کا آغاز کیا، جس میں بعدازاں مہران ٹاؤن اور کورنگی کو بھی اس پروگرام میں شامل کرلیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت کتوں کو انسان دوست انداز میں جال میں پکڑا جاتا ہے اور ٹیکہ لگانے کے بعد ان پر اسپرے پینٹ سے نشان لگایا جاتا ہے تاکہ ویکسین شدہ اور غیر ویکسین شدہ کتوں کی شناخت میں آسانی ہوسکے۔ جراحی نسبندی کے مقصد کے لیے بنائے گئے کنٹینر میں نسبندی کا جراحی عمل انجام دیا جاتا ہے۔ کتوں کو پکڑنے والی ٹیموں، ٹیکہ لگانے والوں اور جانوروں کے معالجوں کو آئی ایچ آر سی کی جانب سے تربیت اور تنخواہیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اینیمل ویکسین کے عطیے اور جنوبی افریقہ کے تجربہ کار تربیت کار کی مقرری کے ذریعے آر ایف کے کی معاونت کی۔