پاکستان

پاکستان کی بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش

مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھنے، کشمیری قیادت کی رہائی اور ان تک رسائی کے بعد بات چیت ہوسکتی ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط رکھتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھنے، کشمیری قیادت کی رہائی اور ان تک رسائی ملنے کے بعد پاک-بھارت مذاکرات ہوسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی متعدد مرتبہ بار کروا چکے ہیں کہ اب بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

تاہم ایک روز قبل نیویارک ٹائمز میں لکھے گئے اپنے مضمون میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا غیر قانونی الحاق کا فیصلہ واپس لینے، کرفیو ختم کرنے اور بھارتی فوجیوں کی بیرکوں میں واپسی کی صورت میں ہی نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔

ادھر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اسی طرح کی شرائط رکھیں۔

مزید پڑھیں: شاہ محمود قریشی کا مودی کو مقبوضہ کشمیر میں عوامی ریفرنڈم کا چیلنج

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے، کشمیری قیادت کو رہا کرنے اور ان تک رسائی حاصل ہونے پر ہی نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت ہو سکتی ہے۔

اپنے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ ہی مذاکرات پر زور دیا اور اس سے کبھی انکار نہیں کیا، تاہم بھارت ہی ہمیشہ ایسا موقع فراہم کرنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وادی میں کرفیو نافذ ہے، مظلوم عوام زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنے دن رات گزار رہے ہیں، خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ جاری ہے تو ایسے ماحول میں مذاکرات کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی شرائط پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر مقبوضہ وادی سے کرفیو اٹھا لیا جائے، قید میں موجود کشمیری قیادت کو رہا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے ملاقات کی اجازت دی جائے تو دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہوسکتے ہیں۔

**یہ بھی پڑھیں: اُمہ کے محافظوں کے بھارت میں مفادات ہیں، شاہ محمود قریشی

اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر میں وہاں کے عوام بھی اہم ترین فریق ہیں، تاہم اگر بھارت بات چیت کے لیے سنجیدہ ہے تو وہ کشمیری قیادت سے ملنے کی اجازت دے، کیونکہ کشمیری عوام کے جذبات کو دیکھنا پڑے گا اور ان کے ان جذبات کو روند کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ممکن نہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر زور دیا کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن ہی رہی ہے اور نہ ہی پاکستان نے کبھی جارحانہ پالیسی کا انتخاب کیا کیونکہ پاکستان کے پاس جنگ کا کوئی آپشن نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دو ایسے پڑوسی مملک جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوں، وہ جنگ کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے، تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اقتدار میں آنے کے بعد متعدد مرتبہ نئی دہلی کو بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی تلقین کی۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر باور کروایا کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو اسی طرح بھارتی اقدام کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جس طرح رواں برس 26 فروری کے اقدام پر 27 فروری کو جواب دیا گیا۔

مزید پڑھیں: چین، پاکستان کے سلامتی کونسل جانے پر تعاون کرے گا، شاہ محمود قریشی

دو روز قبل پاکستان آرمی کے غزنوی میزائل کے کامیاب تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم بلکل تیار ہے۔

’مسئلہ کشمیر اب پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا‘

شاہ محمود قریشی نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو مسئلہ کئی برسوں سے پردے کے پیچھے تھا وہ اب دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب پوری دنیا مسئلہ کشمیر پر بات کر رہی ہے، اسے سلامتی کونسل میں موضوع بحث بنایا گیا، اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا بالخصوص مغرب میں مسئلہ کشمیر سے متعلق احتجاج ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تنازعے کو اب بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے یہ اب یہ صرف دو ممالک کا دوطرفہ مسئلہ نہیں رہا کیونکہ اس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 11 قراردادیں بھی موجود ہیں اور نئی دہلی ان قراردادوں کا پابند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کشمیریوں کے حقوق کے دفاع کیلئے ہر حد تک جائے گا، شاہ محمود

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے سابق وزیراعظم اور بانی رہنما جواہر لال نہرو نے مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا اور اس حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ میں ان کی 1948 اور 1951 کی تقاریر بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔

ایک اور تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اٹل بہاری واجپائی جب بطور وزیراعظم پاکستان آئے تھے تو انہوں نے بھی کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔

’حقائق سامنے آنے پر خلیجی ریاستیں پاکستان کا ساتھ دیں گی‘

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وادی میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالیوں پر خلیجی ریاستوں کے موقف پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان ممالک کے بھارت کے ساتھ معاشی روابط ہیں، تاہم کشمیر کے معاملے پر ان ریاستوں کا موقف واضح ہے۔

انہوں نے ماضی قریب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب پاکستانی دوالیہ ہونے کے قریب تھا تو ان ہی ریاستوں نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا جسے قوم کو نہیں بھولنا چاہیے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم کو اس معاملے میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب کشمیر سے متعلق حقائق سامنے آئیں گے تو یہ خلیجی ممالک پاکستان کا ساتھ دیں گے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے نیویارک کشمیر گروپ کے اجلاس میں سعودی عرب کے ’بڑھ چڑھ کر حصہ لینے‘ سے بھی امیدیں باندھ لیں۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں خون خرابے کا خدشہ ہے، وزیر خارجہ

انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں شامل ممالک کے نمائندوں کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی ممالک کو تو کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی ہے لیکن حکمران اپنی مصلحتوں اور مفادات کو دیکھ کر نپی تلی گفتگو کرتے ہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عوام کی رائے حکمرانوں کی سوچ کو تبدیل کردیتی ہے، تاہم کشمیر کے معاملے میں جب حقائق سامنے آئیں گے تو حکمرانوں کی رائے تبدیلی ہو ہی جائے گی۔

’بھارت نے امریکی پیشکش مسترد کرکے سلامتی کونسل سے راہ فرار اختیار کی‘

شاہ محمود قریشی نے امریکا کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے، تاہم واشنگٹن ہی نئی دہلی کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے متاثر کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تو اسے وزیراعظم عمران خان نے قبول کیا لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے اسے مسترد کردیا تھا۔

ان ک یہ بھی کہنا تھا کہ ثالثی کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے بھی راہ فرار اختیار کی۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا تاہم اس میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیری عوام کی آواز شامل نہ ہونا تھا، کیونکہ کشمیریوں کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں لیا جاسکتا۔

اسی طرح شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن کو آزاد جموں و کشمیر کا دورہ کرنے اور یہاں رپورٹ مرتب کرنے کی دعوت دی تھی، جبکہ ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اس کے بعد اگر بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے تو وہاں جاکر بھی لوگوں سے بات چیت کرکے رپورٹ مرتب کی جائے اور پھر سلامتی کونسل میں اسے پیش کردیا جائے۔