کیا پلاسٹک بیگ ہی سب سے بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہیں؟
احسن پریشان تھے کہ پلاسٹک بیگ بند ہونے کے بعد وہ اپنے گاہکوں کو سودا سلف کس میں دیں گے؟ ان کا اصرار تھا کہ میں انتظامیہ سے بات کرکے کوئی حل ڈھونڈوں۔
احسن ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نفیس نوجوان ہیں جو میرے گھر کے قریب کریانے کی ایک بہت بڑی اور جدید دکان چلاتے ہیں۔ احسن کو تو میں نے ایک شناسا افسر کا نمبر دے دیا کہ وہ خود ہی بات کرلیں۔
لیکن ایک سوال میرے ذہن سے چپک گیا!
معاملہ یہ ہے کہ سستے اور کارآمد ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کے یہ تھیلے ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ سودا سلف خریدنا ہو تو یہ شاپر بیگ، دودھ، دہی اور سبزی لانی ہو تو بھی یہی پلاسٹک بیگ اور تو اور کوڑا پھینکنے کے لیے بھی ان تھیلوں سے بہتر کچھ نہیں۔
پاکستان پلاسٹک مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق ہر سال ملک میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انتظامیہ نے متبادل انتظام کیے بغیر یہ تھیلے بند کردیے تو دکاندار اور گاہک سب مشکل میں پڑجائیں گے۔ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ پہلے سودا سلف کے لیے کپڑے کے تھیلے ہوا کرتے تھے۔ یکدم ذہن میں وہ درجنوں سرکاری سلائی اسکول گھوم گئے جو اسلام آباد کے کم و بیش ہر سیکٹر میں موجود ہیں، آخر انتظامیہ ان مراکز سے تھیلے کیوں نہیں سلواتی؟