پاکستان

شاہد خاقان عباسی کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع

ایل این جی معاہدہ سمجھنے کیلئے نیب کو اب بھی وقت درکار ہے، استغاثہ کی درخواست قبول کرلیں، سابق وزیر اعظم کا جج سے مکالمہ

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روزہ کی توسیع کردی۔

اس سے قبل 15 اگست کو عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر سابق وزیراعظم کا 14 روز جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، جس کی مدت 29 اگست کو ختم ہونے پر شاہدخاقان عباسی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو چھوٹے اور گنجان کمرہ عدالت میں جج شاہ رخ ارجمند کے روبرو پیش کیا گیا جو جج محمد بشیر کی غیر موجودگی میں احتساب عدالت کے انتظامات چلارہے ہیں۔

نیب پروسیکیوٹر نے شاہد خاقان عباسی کو عدالت میں پیش کرکے ان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی کے ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

شاہد خاقان عباسی نے وکیل نہ ہونے پر خود موقف پیش کرتے ہوئے جج سے پروسیکیوٹر کی درخواست قبول کرنے کا کہا۔

انہوں نے تنزیہ لہجے میں کہا کہ قومی احتساب ادارے (نیب) کو اب بھی ایل این جی معاہدے کو سمجھنے کے لیے وقت درکار ہے۔

شاہد خاقان عباسی پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ میں بطور وزیر پیٹرولیم 15 سال کے لیے ایل این جی ٹرمینل کا معاہدہ کرنے کا الزام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی گرفتار

نیب کی جانب سے اس کیس کو 2016 میں بند کردیا گیا تھا تاہم اسے 2018 میں دوبارہ کھولا گیا۔

دریں اثنا سابق وزیر قانون بیرسٹر ظفراللہ خان نے شاہد خاقان عباسی کی نمائندگی کے لیے اپنا وکالت نامہ جمع کرادیا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی نے جسمانی ریمانڈ کے دوران وکیل کرنے سے انکار کردیا لیکن جب عدالت انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے گی تو انہیں وکیل کی ضرورت پڑے گی۔

ان کے مطابق سابق وزیر اعظم جسمانی ریمانڈ کے ختم ہونے کے بعد ضمانت کے لیے درخواست دائر کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نیب نے 18 جولائی کو ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کیا تھا اور 19 جولائی کو انہیں 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کیا گیا تھا، جس کے بعد نیب کی جانب سے یکم اگست کو 13 روز مکمل ہونے پر مزید 14 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی جو عدالت نے منظور کرلی تھی۔

15 اگست کو ریمانڈ کی مدت ختم ہونے پر سابق وزیراعظم کو مزید 14 روز کے لیے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کیا گیا تھا۔

ایل این جی کیس

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن کیس کمپنی لمیٹٰڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد رواں برس اپریل میں حکومت نے36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ (جون ) میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔