نیب قانون کی قلابازی اور ہمارے ادارے


شہریوں کے ایک چھوٹے سے حصے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈینینس میں نرمی لانے کا حکومتی منصونہ نہایت ہی باعثِ تجسس بنتا جا رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مشرف کے بنائے گئے اس قانون میں چند بنیادی خامیوں کو تھوڑے پھوہڑ پن کے ساتھ دُور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت کو اس بات کا خیال صرف چند دن پہلے ہی آیا، حالانکہ اس بارے میں عام شہریوں کو برسوں سے خبر تھی کہ نیب کی جانب سے متاثرین سے شواہد ہتھیانے کا طریقہ کار گورننس، انصاف اور معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ عدلیہ نے بھی اس بااختیار ادارے کے کام کے طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے لیکن ادارے کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
کابینہ کے اجلاس میں اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کے بعد اب مشیر برائے اطلاعات نے جن باتوں کے انکشافات کیے ان سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ نیب نے قومی بحران کو جنم دیا ہے۔
مشیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ معیشت کا بُرا حال اس لیے ہوا کیونکہ سرمایہ کار اور کاروباری حضرات نیب سے اس قدر خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کو ٹھیک سے انجام ہی نہیں دے پارہے، جبکہ بیوروکریٹس نے فائلوں پر دستخط کرنا بھی بند کردیا۔
مشیر کی بڑھا چڑھا کر کی جانے والی باتوں کی عادت کو درگزر کرنے کے بعد بھی کابینہ کے اجلاس میں زیرِ غور لائی جانے والی باتوں کے بارے میں جو نتیجہ اخذ کیا اس نے عوام کو بہت زیادہ اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔
اگلے دن وفاقی وزیرِ قانون نے چند مزید قابلِ فہم تشریحات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ ان افراد کو بھی نیب کی زیادتیوں سے محفوظ بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہے جو کبھی بھی سرکاری عہدوں پر فائز نہیں رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیب کا جال صرف اور صرف سرکاری عہدوں پر فائز ہونے والے افراد کے لیے ہوگا، اور یہ افراد دراصل وہ سیاستدان ہیں جن کے پاس اس وقت کوئی لابی نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے تاجر برادری کی پرواہ کرنے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ خاندانِ پاکستان کا اہم حصہ ہیں اور مارکیٹ معیشت کے اس دور میں ان کی اہمیت کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اب اس بات کو کیا یاد کیا جائے کہ برِصغیر کے سیاسی رہنما، خواہ ان کا تعلق کانگریس سے ہو یا پھر مسلم لیگ سے، وہ کرپشن جیسے بڑے مسئلے سے تقسیم ہند کے وقت اسی لمحے آگاہ ہوگئے تھے جب ان کا سامنا دوسری جنگِ عظیم کے دوران کاروباری شخصیات کی جمع کی ہوئی دولت سے ہوا۔
دونوں سیاسی جماعتوں نے نو دولتیوں کے احتساب کا فیصلہ کیا لیکن جب (47ء-1946ء کی عبوری حکومت کے) وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان نے ان افراد پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو طاقتور بزنس لابی نے اپنی ناجائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا ایک حصہ اگلنے کے بجائے تقسیم کو ترجیح دی۔
ہمیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ موجودہ کاروباری برادری ماضی کی طرح اپنے اندر کالی بھیڑیں بالکل بھی نہیں رکھتی، وہ کالی بھیڑیں جنہوں نے ریاست کے حرارت خانے میں افزائش پائی، برآمدی رسیدوں پر پیسے بنائے، ترقیاتی کاموں کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ کیا اور مشینری کی درآمدات کی مد میں زیادہ بڑے بل بنائے۔ پاک دامن کاروباری برادری کو بے رحم نیب کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
اسی طرح ہمیں یہ بھی امید رکھنی چاہیے کہ سول بیوروکریسی نے اپنے ان سابقین کی راہ پر چلنا چھوڑ دیا ہے جو فوجی آمروں اور کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ اپنے فرائض سے تجاوز کرتے ہوئے تعاون کرتے رہے، لہٰذا یہ بھی کسی طور پر نیب کی سختیوں کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔ (یاد رہے کہ عدالتی اور فوجی بیوروکریسی پر نیب کا قانون لاگو نہیں ہوتا)۔
ایک ایسے معاشرے میں کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے جس کی نمایاں صفت عدم مساوات ہو۔