خیال رہے کہ پاکستان نے رواں سال 26 فروری کو بھارت کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد بھارت کے لیے فضائی حدود کو بند کردیا تھا اور اسے 16 جولائی کو کھولا گیا تھا۔
اب ڈیڑھ ماہ بعد پاکستان ایک بار پھر فضائی حدود بند کرنے پر غور کررہا ہے، بھارت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کا اندازہ فروری سے جولائی تک رہنے والی پابندی کے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے جو بھارتی میڈیا نے خود مختلف رپورٹس میں بتائے ہیں۔
طویل پروازیں
بھارت سے جو طیارے پاکستانی حدود سے گزرتے ہیں، ان پر اس پابندی کے نتیجے میں فلائٹ کا دورانیہ کم از کم 70 سے 80 منٹ تک اضافہ ہوجائے گا۔
پاکستانی حدود میں 11 فضائی روٹس ہیں اور فروری میں پاکستان نے مکمل فضائی حدود بھارت کے لیے بند کردی تھی، جبکہ مارچ کے بعد اسے جزوی طور پر کھولا گیا۔
اب پاکستان ایسا کرتا ہے تو شمالی بھارت جیسے دہلی، لکھنو، جے پور، چندی گڑھ اور امرتسر سے پرواز کرنے والے طیارے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ ان کو جنوب میں گجرات یا مہاراشٹر جاکر بحیرہ عرب سے گزر کر یورپ، شمالی امریکا یا مغربی ایشیا کا رخ کرنا ہوگا۔
ایندھن زیادہ خرچ ہوگا
فروری میں لگائی جانے والی پابندی کے بعد ائیر انڈیا کی دہلی سے شکاگو تک نان اسٹاپ پرواز کو ایندھن بھروانے کے لیے یورپ میں رکنا پڑرہا تھا اور ہر ری فیولنگ پر اوسطاً 50 لاکھ روپے کا خرچہ ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : ’بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش کا فیصلہ وزیراعظم کریں گے‘
اسی طرح ایک اور فضائی کمپنی انڈی گو کی دہلی سے استنبول تک نان اسٹاپ پرواز کو دوہا میں ری فیولنگ کے لیے رکنا پڑتا تھا جبکہ اسپیس جیٹ نے دہلی سے کابل کا روٹ ہی ختم کردیا تھا۔
مالی نقصانات
بھارتی فضائی کمپنیوں کو پاکستانی پابندی کے نتیجے میں پرواز کا دورانیہ بڑھنے اور زیادہ ایندھن جلانا پڑتا تھا اور اس کے نتیجے میں فروری سے جولائی کے دوران ان کمپنیوں کو کم از کم 7 ارب بھارتی روپے (لگ بھگ ساڑھے 15 ارب پاکستانی روپے) کا نقصان ہوا اور سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ائیر انڈیا کو کرنا پڑا۔
اسی طرح مسافروں کے لیے ٹکٹ بھی زیادہ مہنگا ہوگیا کیونکہ کمپنیوں نے اپنا نقصان کا کافی بڑا حصہ ان کی جانب منتقل کردیا۔
اب اگر پاکستانی فضائی حدود بند کی جاتی ہے تو اس سے بھارت کے نقصان کا اندازہ اس کے دورانیے سے ہوگا مگر وہ بھی یقیناً اربوں روپے ضرور ہوگا۔