کرکٹ سستی پڑتی ہے اس لیے ہم نے فٹ بال کھیلنا چھوڑ دیا
رومیلو لوُکاکو گول کرنے کے بعد خوشی سے دوڑنے لگتے ہیں۔ ان کی پوری ٹیم میں خوشی کی ایک لہر دوڑ اٹھتی ہے۔ رومیلو میدان میں اس وقت تک اپنی دوڑ جاری رکھتے ہیں جب تک ان کی ٹیم کا ایک ساتھی انہیں پکڑ نہیں لیتا ہے۔ وہ پیچھے مڑتا ہے اور ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل کر جیت کا جشن منانا شروع کردیتا ہے۔ اسی دوران رومیلو سے پاؤل پوگبا گلے ملتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح مزید بہتر انداز میں گول کرسکتا تھا۔ یہ سارے کھلاڑی تھیٹر آف ڈریمز کے میدان میں کھیل رہے ہیں۔ نہیں نہیں جناب یہ وہ تھیٹر آف ڈریمز نہیں جس سے لاکھوں فٹ بال مداح واقف ہیں۔
ہم بات کر رہے ہیں دی رائزنگ اسٹارز فٹ بال اکیڈمی کی، جو لیاری کی یو سی 8 میں واقع ہے۔ ایک ایسی فٹ بال اکیڈمی جہاں 6 سے 15 برس کے بچے فٹ بال کی ٹریننگ بالکل مفت حاصل کرتے ہیں۔
جب بچے یہاں کھیل رہے ہوتے ہیں تو ہر کھلاڑی دوسرے کھلاڑی کو اس کے پسندیدہ فٹ بالر کے نام سے پکارتا ہے۔ کلری زگری اسکول کا چھوٹا صحن ان بچوں کے لیے کسی مقدس زمین کے ٹکڑے سے کم نہیں ہے۔ یہ بچے ٹریننگ کے وقت بغیر گھاس کے میدان میں بھی دوڑنے، بھاگنے اور چھلانگیں لگانے میں ذرا بھی بُرا نہیں مناتے۔
اس اکیڈمی کے کوچ مراد سابق پروفیشنل فٹ بال کھلاڑی ہیں جو ایک عرصے سے بے روزگار ہیں۔ اپنی ضروریات زندگی کو پورا نہ کرپانے کے باوجود بھی انہوں نے اس علاقے کے کئی بچوں کو ان کے خواب پانے میں مدد فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ مراد کہتے ہیں کہ ’اب سے 3 یا 4 ماہ بعد ہم رائزنگ اسٹارز فٹ بال اکیڈمی کی پہلی سالگرہ منائیں گے۔ ہم نے اس اکیڈمی کا آغاز اپنے بچوں کو منشیات کی لت سے بچانے اور صحتمند سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی غرض سے کیا تھا۔‘
پڑھیے: لیاری کا سر فخر سے بلند کرنے والی ماں بیٹی
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’میں خود بھی فٹ بالر تھا۔ میں حیدری بلوچ اور نیشنل بینک آف پاکستان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ قومی فٹ بال ٹیم کے لیے لگائے گئے قومی کیمپ کا حصہ بھی رہ چکا ہوں۔ میں جب ان بچوں کو گلی محلوں میں کھیلتا ہوا دیکھتا تھا تو مجھے یہی سوچ آتی تھی کہ کیوں نہ ان بچوں کو یہاں لے آؤں اور انہیں ٹریننگ دوں؟ کیا پتا کل یہاں سے نکلنے والا کوئی کھلاڑی آگے چل کر دنیائے فٹ بال میں بڑا نام کمالے۔‘
وہ میدان کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’برسات کے بعد یہاں جگہ جگہ پانی ٹھہر گیا تھا، جس کے باعث بچوں کو ٹریننگ کے حصول میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ سو میں نے انہیں اپنے اپنے گھروں سے جھاڑو اور پونچھیں لانے کو کہا تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ پانی میدان سے باہر نکال سکیں۔‘
جب ان سے اکیڈمی میں لڑکیوں کی غیر موجودگی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ لڑکیوں کو ایک دن کی چھٹی دی گئی ہے تاکہ میدان کو تیار کیا جاسکے کیونکہ میدان کی موجودہ حالت ایسی ہے جس میں انہیں زیادہ چوٹیں لگنے کا خدشہ رہتا ہے۔‘