نقطہ نظر مسئلہ کشمیر: فرسودہ طریقہ کار کو چھوڑیے، ان نئے آئیڈیا کو اپنائیے جتنے اہم مقاصد ہیں اتنے ہی اہم وہ ضرب المثل، لہجے اور زبان ہے جنہیں نئی حکمت عملی کے نفاذ کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے۔ جاوید جبار لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔ کیا پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حالیہ بحران کو ایک ایسے موقعے میں تبدیل کرسکتا ہے جس کے ذریعے دنیا کو کشمیر تنازع اور پاکستان کے حوالے سے ایک بالکل ہی نیا زاویہ نظر بخشا جائے؟ جواب ہاں تو ہے لیکن اس کام کے لیے جرأت مندانہ اور سرگرم رابطہ حکمت عملی مرتب کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا تاکہ موجودہ سفارتی حکمت عملی کو تقویت پہنچائی جاسکے۔ وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ اس وقت تاب و تواں سرکاری مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں پر زور دینا، اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے کشمیر تنازع سے دنیا کا دھیان ہٹانے اور اپنی اشتعال انگیزی کو جائز قرار دینے کی خاطر جعلی دہشتگرد کارروائی کے ارادوں کے بارے میں چوکس کرنا یقیناً بروقت اور مناسب اقدام ہے۔ تاہم اگرچہ یہ کوششیں گہرا اثر رکھتی ہیں اور بین الاقوامی پریس میں ان باتوں کو تھوڑی بہت جگہ ملتی تو ہے، مگر حکومت کے ان اقدامات اور پیغامات کی زیادہ پہنچ انہی پاکستانیوں تک ہے جو اس مؤقف سے آگاہ ہیں۔ حالانکہ اس حوالے سے زیادہ متعلقہ اور اہم ناظرین، سامعین و قارئین پاکستان سے باہر اربوں کی تعداد میں موجود ہیں، بالخصوص ان میں سے ایسے ہزاروں لوگوں تک بھی پیغام کی رسائی نہیں ہوپاتی جو اپنے اپنے ملک کا زاویہ نظر اور اس کی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔اگرچہ ہمارے اپنے آزاد نیوز میڈیا کی رسائی لاکھوں افراد تک تو ہے لیکن ہمارے انگریزی الیکٹرانک میڈیا کی عالمی پہنچ بہت ہی محدود ہے۔ اس کے علاوہ ہماری بیرونی میڈیا میں ہسپانوی، فرینچ، چینی اور دیگر ایسی زبانیں اتنے وسیع عالمی دائرے میں استعمال ہی نہیں ہو رہی ہیں جتنا بڑا ہمیں چیلنج لاحق ہے۔ حالیہ مہینوں میں ایک مقامی انگریزی نیوز چینل کی آمد ایک بہت ہی امید افزا نئی کوشش ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے چند بڑے بین الاقوامی میڈیا ادارے اور سوشل میڈیا کے کچھ حلقے بھارتی ظلم پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ 72 برسوں، بالخصوص 1989ء سے 7 لاکھ بھارتی فوج کی بندوقوں کے سائے میں کٹھن حالات جھیلنے والے 70 لاکھ کشمیریوں کے بدترین حالات کے مقابلے میں چند ماہ سے جاری ہانگ کانگ مظاہروں کو نمایاں حیثیت دی جا رہی ہے۔ رابطہ کاری کی نئی حکمت عملی کے 3 اہم مقاصد ہونے چاہئیں۔ پہلا: مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بدترین مظالم کے بارے میں دنیا کو پل پل کی آگاہی دینا۔دوسرا: سمندر پار ملکوں میں حقیقی یا تصوراتی ’کشمیر فٹیگ (تھکان)‘ کے عنصر کا مقابلہ کرنے اور اس پر غالب آنا۔ (اس مقصد کے لیے پیلٹ گنز سے نابینا ہوچکے افراد کی تصاویر سے لے کر ہزاروں گمشدہ افراد کی تصاویر ایک طاقتور وسیلہ بن سکتا ہے)۔ تیسرا: دنیا کے زیادہ تر حصوں میں پائی جانے والی پاکستان کی منفی ساکھ کی دھیرے دھیرے تبدیلی۔ یہ ساکھ ایک ایسی المناک حقیقت ہے جو مندرجہ ذیل 3 وجوہات کے باعث وجود میں آئی، پہلی: 1980ْ اور 1990 کی دہائی کے دوران ہماری اپنی وہ خراب پالیسیاں جن کے باعث انتہاپسندی اور تشدد جیسے الفاظ پاکستان کے ساتھ جوڑے جانے لگے۔دوسری: دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکار کرنے میں ہماری ناکامی کہ پاکستانیوں کی اکثریت معتدل، دوستانہ اور پُرامن مزاج رکھتی ہے، حالانکہ پاکستان میں آنے والے تقریباً سارے غیر ملکی باشندے ہماری ان خصوصیات کی گواہی دیتے ہیں۔ تیسری: بھارت کی جانب سے سفارتکاری، اکیڈمیا، نیوز میڈیا، سنیما اور مغربی پالیسی سازی اور رائے سازی میں شامل بھارتی نژاد افراد کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں کامیابی۔جتنے اہم مقاصد ہیں اتنے ہی اہمیت کے حامل وہ ضرب المثل، لہجے اور زبان ہے جنہیں نئی حکمت عملی کے نفاذ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے بے باک نعرے کے بجائے ہمیں زیادہ سے زیادہ توجہ کشمیر کے لیے حقِ خودارادیت پر مرکوز ہونی چاہیے۔ مسلم قرابت داری سے زیادہ فاشسٹ ہنتدتوا نظریے کو پیغام کا مرکزی نکتہ رکھا جائے۔ کشمیر میں ہونے والے ظلم کو سامنے لانے کے لیے 2018ء کی اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کو جذباتی، کرخت اور اونچی آواز کے بجائے دھیمے اور معتدل انداز میں سامنے لایا جائے۔ پاکستان کو ایک جامع، کثیرالجہتی مہم کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف طریقہ کار بھی بروئے کار لائے جاسکتے ہیں: جیسےپیغام کی عالمی رسائی کے لیے ہر بڑے ملک کے بااثر پرنٹ میڈیا میں جگہ اور الیکٹرانک میڈیا کا وقت خریدا جائے، انہیں اخباری اداریوں اور پروگرام کے مواد میں بار بار ہمارا پیغام دہرانے کے لیے کہا جائے، اور سوشل میڈیا کا تخلیقی انداز میں استعمال کیا جائے۔ اچھی انگریزی بولنے والے سابق سفارتکاروں، تجزیہ نگاروں اور اراکینِ پارلیمنٹ پر مشتمل ٹیمیں دنیا کے اہم شہروں کا رخ کریں اور بڑے ہی سہل، معتدل اور معقول انداز میں واضح پاکستانی پیغام پہنچایا جائے۔ شاندار پاکستانی ثقافت اور کشمیریوں کے صوفی انسان دوست مزاج سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے دنیا کے اہم مراکز میں سینٹرز کھولے جائیں۔ ممتاز بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نمائندگان کو آزاد کشمیر اور پاکستانی حدود میں موجود کنٹرول لائن آنے کی دعوت دی جائے، یاد رہے کہ بھارتی حدود میں موجود لائن آف کنٹرول پر رسائی دستیاب ہی نہیں ہے۔ مجوزہ منصوبے کو سرکاری و نجی شراکت داری کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ حکومتی نمائندوں کا کردار بیوروکریٹک کے بجائے سہولت کاری کی فراہمی ہو، جبکہ نجی خدمات فراہم کرنے والے نمائندے سرگرم لیکن منظم ہوں۔ چونکہ حکومت کے خزانے میں زیادہ پیسے نہیں ہیں مگر ہمارے پاس 3 ایسے فنڈنگ ذرائع موجود ہیں جن سے مالی معاونت حاصل کی جاسکتی ہے۔پاکستان میں مقیم فلاحی کام کرنے والے افراد اور کارپوریٹ شخصیاتسمندر پار پاکستانی پروفیشنلز اور کاروباری شخصیاتدنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے کشمیریتاریخی طور پر پاکستان نے کبھی بھی اپنے مثبت پہلوؤں اور کشمیری حقوق کی اپنی جائز حمایت کو نمایاں کرنے کے لیے ایک منظم اور طویل المدت مہم کا اہتمام نہیں کیا۔ ماضی میں اس حوالے سے صرف بکھری ہوئی، محدود، ہدایت آموز انداز اور نہایت کم پیسوں کے ساتھ کی گئی کوششیں کی گئی ہیں۔یاد رکھیں اس مقصد میں ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے 5 ڈالر کا منافع حاصل ہوگا۔ آئیے 2019ء کو پاکستان سے متعلق نئے عالمی بیانیے کی ابتدا کا سال بنائیں۔ٰیہ مضمون 28 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ جاوید جبار لکھاری سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔