’کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں وہ ذلت آمیز تجربے آج بھی یاد ہیں‘
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں اپنی نو عمری کے زمانے میں وادئ کشمیر کی ڈل نامی جھیل کے آس پاس وہاں تعینات فوجی اہلکاروں کو گنا کرتی تھی۔
تقریباً ہر ایک درجن میٹر کے فاصلے پر فوجی اہلکار تعینات ہوتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب کشمیر میں جِم نہیں ہوا کرتے تھے اس لیے زبروان پہاڑیوں کے بیچ میں واقع 5 ہزار 200 فٹ کی بلندی پر واقع جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ تیز دوڑنا ہی جسمانی ورزش کا ایک طریقہ ہوتا تھا۔
جھیل پر بھارتی فوج کا قبضہ تھا، بعض اوقات تو ہمیں خاردار تاروں میں سے پوری رفتار کے ساتھ گزرنا پڑ جاتا تھا۔ جب کبھی میں کسی فوجی اہلکار کے سامنے سے گزرتی تو وہ سیٹی بجاتا اور میری طرف آواز کستا۔ مجھے وہ سارے ذلت آمیز تجربے اب بھی یاد ہیں۔
مزید پڑھیے: مسئلہ کشمیر: فرسودہ طریقہ کار کو چھوڑیے، ان نئے آئیڈیا کو اپنائیے
جب عید کے ایک ہفتے بعد کشیدہ صورتحال 11ویں دن میں داخل ہوئی تو مجھے گھروں میں قید اپنے گھر والے اور دیگر 80 لاکھ کشمیریوں کی یاد آئی اور ساتھ مجھے اپنی وہ دوڑیں بھی یاد آگئیں۔
مجھے اپنے جذبات کی شدت بھی یاد آئی جو مجھے بچپن میں ان فوجیوں پر غالب آنے پر محسوس ہوا کرتی تھی اور وہ دل کی دھڑکنیں بھی یاد آئیں جو بنکروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اور وردی اور بندوقوں والوں کو تیزی سے پیچھے دھکیلنے پر دھڑکا کرتی تھیں۔
پھر بالآخر جھیل کو سب کے لیے کھول دیا گیا اور وادی کی بے انتہا خوبصورتی لوٹ آئی۔ اس کے بعد جاکر ہی میرا تخیل بھی پروان چڑھا۔ مجھے اس احساس کا بے تکا پن بھی یاد ہے جو میں نے دنیا کے سب سے زیادہ ملٹریائزڈ خطے میں آبی اُفق کے پیچھے دوڑنے کے تصور پر محسوس کیا تھا۔
مجھے کشمیر کی جو ایک بات سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ہے تمام مشکلات کو جھیلنے کا حوصلہ۔ کئی کشمیریوں کی زندگیاں ختم ہوگئیں لیکن تنازع اپنی جگہ برقرار رہا۔ پوری پوری نسلیں ہیں جو فوجی راج میں پلتی بڑھتی رہیں۔
اس وادی میں بچے ریت سے بھری بوریوں کے درمیان کرکٹ کھیلتے ہیں۔ انصاف تک رسائی تو نظام کا حصہ ہی نہیں ہے کیونکہ آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ جیسا سیاہ قانون نافذ ہے جسے 1958ء میں متعارف کروایا گیا تھا۔ یہ قانون کسی بھی شخص کو گولی سے مارنے اور غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ یعنی فوج کو مکمل چُھوٹ حاصل ہے، وہ جو چاہیں وہ کریں۔
گزشتہ برس کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جاری ہونے والی رپورٹ کے چند گھنٹے بعد سری نگر میں نامور مقامی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن کو اس کے دفتر کے باہر فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ دہشت اور عذاب کے یہ ناقابلِ یقین حالات شدید لاچارگی اور بے چارگی میں مبتلا کردیتے ہیں۔
یہاں تک کہ بولی وڈ میں ان کی زندگیوں کا مذاق بنایا گیا اور یہ ان بھارتیوں کے چائے کے کپ پر دیے جانے والے خطبوں کا محور بھی نہیں رہیں جو آج انہیں غیر حاضر ہم وطن قرار دیتے ہیں، مگر ان بُرے ترین حالات میں بھی کشمیریوں نے کسی نہ کسی صورت اپنے وقار کو بلند ہی رکھا اور اپنی جدوجہدِ آزادی کو مسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔