پاکستان

وزیراعظم عمران خان کا سعودی ولی عہد کو فون، کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال

عمران خان نے محمد بن سلمان کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مقبوضہ وادی میں پیدا ہونےوالی صورتحال سے آگاہ کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے رابطہ کرکے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مقبوضہ وادی میں پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

سعودی سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے 26 اگست کی رات سعودی ولی عہد کو ٹیلی فون کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد نے کشمیر کی موجودہ صورتحال اور خطے میں جاری کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا۔

مزید پڑھیں: مودی کی غلطی سے کشمیریوں کو آزاد ہونے کا تاریخی موقع مل گیا، وزیراعظم

یاد رہے کہ گزشتہ روز قوم سے اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے سفیر بن کر دنیا کو اس مسئلے سے آگاہ کریں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اس مسئلے کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اٹھاؤں گا اور اس پر مختلف ریاستوں کے سربراہان سے بات کروں گا جن سے وہ رابطے میں ہوں۔

انہوں نے یہ بھی باور کروایا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران بھی مسئلہ کشمیر اٹھائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھارت سے سفارتی جنگ جیت گیا‘

عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر مشرقی وسطیٰ سمیت کچھ مسلمان ممالک کی جانب سے بھارتی اقدام کے خلاف ایکشن نہ لینے پر بھی اپنے خطاب میں روشنی ڈالی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر کچھ مسلمان ممالک اس مسئلے کو اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے نہیں اٹھا رہے تو وہ ایک دن ہمارے ساتھ ہوں گے، وقت کے ساتھ انہیں آنا ہوگا۔

پاکستانی مندوب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر سے ملاقات

دریں اثنا اقوaم متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر ماریہ فرنینڈا اسپنوسا سے ملاقات کی اور مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کے بارے میں انہیں بریفنگ دی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر کو بھارت کی جانب سے وادی میں نافذ کرفیو اور لاک ڈاؤن سے متعلق بتایا جس کی وجہ سے کشمیری عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیئں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا۔

یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔