پاکستان

کابینہ کمیٹی کا ریلوے منصوبے پر چین سے بات چیت کا فیصلہ

کابینہ کمیٹی برائے پاک چین اقتصادی راہداری نے سی پیک اتھارٹی بل کا ڈرافٹ کابینہ سے منظوری کے لیے بھجوادیا۔

اسلام آباد: کابینہ کمیٹی برائے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) نے 3 اراکین کی مخالفت کے باوجود 8.2 ارب ڈالر کے مین ریلوے لائن (ایم ایل-1) منصوبے پر چین سے بات چیت کا فیصلہ اور سی پیک اتھارٹی بل کے ڈرافٹ کو کابینہ سے منظوری کے لیے بھجوادیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معلومات رکھنے والے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر ریلوے شیخ رشید نے ایم ایل-وان پر منصوبہ بندی کے حوالے سے اداروں کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی ڈاکٹر عشرت حسین نے مالی تنگیوں کے باوجود ایک اور ادارے کے قیام کی مخالفت کی۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی محدوم خسرو بختیار نے اجلاس کی صدارت کی جس میں شیخ رشید وزیر بحری امور علی زیدی، ڈاکٹر عشرت حسین، وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد، پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر جہانزیب خان اور وفاقی سیکریٹریز نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: سی پیک منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے اتھارٹی کے قیام کا اعلان

شیخ رشید نے اجلاس کو بتایا کہ 'مجھے یہ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ پلاننگ کمیشن، ایم-وان کے افتتاح سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور چین کو منصوبہ دیے جانے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جارہا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے منصوبہ سست روی کا شکار ہوگیا ہے۔

حکام نے بتایا کہ وزیر ریلوے نے اجلاس کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر عوام کو اعتماد میں لیں گے۔

پلاننگ کمیشن کے سینئر حکام نے وضاحت دی کہ ایم ایل-وان منصوبے پر اب تک فریم ورک معاہدہ نہیں ہوا۔

کافی بحث کے بعد کمیٹی نے ایم ایل وان منصوبے پر بحث پر رقم خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے تحت کوئلے سے چلنے والا ایک ہزار 320 میگا واٹ کا بجلی گھر فعال

خسرو بختیار نے کہا کہ ایم ایل-وان سی پیک کے تحت نہایت اہم منصوبہ ہے اور حکومت اسے تیزی سے مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عشرت حسین اور عبدالرزاق داؤد نے سی پیک کے اہم حصے مکمل ہونے کے باوجود اتھارٹی میں اسٹاف کی تعداد میں اضافے پر سوالات اٹھائے۔

ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ جب ملک کو مالی مشکلات کا سامنا ہے تو سی پیک کے لیے پیش کردہ اتھارٹی میں 70 سے 80 افراد کو بھرتی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی سادگی مہم کے وعدے کے خلاف ہے۔

عبدالرزاق داؤد نے بھی ان کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ اداروں میں لچک ہونی چاہیے اور اس میں چند ذہین لوگ ہونے چاہیے۔