واٹر لو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خودکلامی کی عادت سے سوچنے اور جذبات کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے طویل المعیاد بنیادوں پر فائدہ ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو دانشمند بنانے کے ساتھ روزمرہ کی زندگی کے معمولات کے لیے تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔
تحقیق میں مختلف افراد میں اس عادت کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں جذباتی استحکام آتا ہے جبکہ لوگوں سے تعلق میں اطمینان بھی بڑھتا ہے جو زندگی کے منفی پہلوﺅں سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ خودکلامی کرنے والے افراد منکسر المزاج ہوتے ہیں اور دیگر افراد کے خیالات کو قبول بھی کرتے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ سال برطانیہ کی بنگور یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ بلند آواز میں خود سے باتیں کرنا درحقیقت ذہنی طور پر بہت زیادہ فعال افراد میں پائے جانے والی عادت ہے۔
اس تحقیق کے دوران محققین نے 28 رضاکاروں کو ایک تحریر فراہم کرتے ہوئے کہا کہ یا تو اسے بلند آواز میں پڑھیں یا خاموشی سے اپنے ذہن میں۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے یہ تحریر اونچی آواز میں پڑھی، وہ اپنے کام میں زیادہ توجہ مرکوز رکھنے اور بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کی خودکلامی دیگر افراد کو عجیب لگے، مگر اس سے لوگوں کو اپنے رویوں کو کنٹرول کرنے میں زیادہ مدد ملتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہم کسی مشکل کام کے دوران خود سے بات کرتے ہیں تو اس سے کارکردگی بہتر ہوتی ہے، جبکہ خود پر کنٹرول کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔
ان کے بقول عام طورپر خودکلامی کی عادت بہت زیادہ ذہین ہونے کی علامت ہے، درحقیقت جو لوگ خود سے باتیں کرتے ہیں، وہ زندگی میں بھی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
2017 میں امریکا کی وسکنسن میڈیسن یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ یہ عادت ذاتی کارکردگی اور دماغی افعال کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے کیونکہ اس سے کام پر توجہ مرکوز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ اونچی آواز میں خود سے بات کرنے سے دماغ کے وہ حصے حرکت میں آجاتے ہیں جو یاداشت کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں جبکہ اپنے جذبات سے جڑنا آسان ہوجاتا ہے۔