پاکستان

پاکستان کشمیریوں کے حقوق کے دفاع کیلئے ہر حد تک جائے گا، شاہ محمود

بھارت کے اس اقدام کے سبب پہلے سے غیرمستحکم جنوبی ایشیا کا خطہ مزید خطرات سے دوچار ہو گیا ہے، وزیر خارجہ کا خطاب

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی جارحیت کے خلاف کشمیریوں کے قانونی حق اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے پاکستان ہر حد تک جائے گا اور انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل اور ترک وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر تبادلہ خیال بھی کیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹری انسٹیٹیوٹ اسلام آباد میں منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے ایک کروڑ 20لاکھ عوام دنیا سے کٹ گئے ہیں، بچے، بوڑھوں اور عورتوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو بغیر کسی چارج شیٹ کے نظربند کردیا گیا ہے اور اور بھارتی فوج کرفیو لگا کر لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں اور 4 سے 6سال کے بچوں کو بھی غیرانسانی طریقے سے رات کے اندھیرے میں ان کی ماؤں سے چھین لیا گیا ہے اور ان کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ کشمیری ہیں۔

'کشمیر میں سڑکیں اور گلیاں سنسنان، سیاسی رہنما نظربند، غیرملکی میڈیا سمیت میڈیا کی آزادی کو بندوق کے زور پر یرغمال بنا لیا گیا ہے اور وہاں شہریوں سے زیادہ مقبوضہ فوج موجود ہے جہاں ہر تقریباً ہر دروازے کے باہر ایک فوجی نظر آتا ہے اور احتجاج سے بچنے کے لیے جنازوں پر حملہ اور شہیدوں کو پولیس کی زیر نگرانی دفن کیا جا رہا ہے'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ظالمانہ تصویر کسی ہٹلر کے نازی جرمنی کی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ہے جہاں عالمی سطح کی مذمت اور تنقید کے باوجود بھارتی قبضے اور کرفیو کو 22 دن گزر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت جانتا تھا کہ کشمیری کسی بھی صورت اس اقدام کو قبول نہیں کریں گے لہٰذا انہوں نے کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کرتے ہوئے انٹرنیٹ، موبائل فونز سمیت مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کے تمام ذرائع پر پابندی عائد کردی۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 10 سے 12 لاکھ فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں۔

بھارت کی جانب سے بھاری مقدار میں مقبوضہ کشمیر میں فوج کی تعیناتی کی خبریں سامنے آنے کے بعد 5 اگست کو بھارت نے وادی کشمیر کو خصوصی اہمیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا۔

مزید پڑھیں: کشمیر جلد بنے گا بھارت کا افغانستان!

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جہاں 10 سے 12 لاکھ فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں، وہیں اس نے 3 ہفتوں سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور وادی کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو بھی گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے ہزاروں کشمیریوں کو نظربند کیا ہوا ہے اور بچوں کو ان کے گھروں سے اغوا کیا جا رہا ہے تاکہ بھارتی فورسز ان کا استعمال کر کے بڑوں پر اقبال جرم کے لیے دباؤ ڈال سکیں اور اب آبادیاتی تناسب کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی فوجی خواتین کی عصمت دری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں اور کرفیو اور پابندیوں کے سبب بچوں کے دودھ اور ادویہ کی بھی شدید قلت ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور ہم بھارتی جارحیت کے خلاف کشمیریوں کے قانونی حق اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے اس یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام کی مذمت کی تھی اور بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اس اقدام سے پہلے سے غیرمستحکم جنوبی ایشیا کا خطہ مزید خطرات سے دوچار ہو گیا ہے اور اگر انہیں نہ روکا گیا تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ‘کشمیریوں کو گھٹنوں پر لانا ہندو قوم پرستوں کا خواب تھا ‘

وزیر خارجہ کہا کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر مستقل اشتعال انگیزی کر رہا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے خراب ہوتی صورتحال سے عالمی برادری کی توجہ ہٹائی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو چوتھے ہفتے میں داخل، پابندیاں بدستور برقرار

ان کا کہنا تھا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر زیادہ عرصے تک خاموش نہیں رہ سکتی، یہ ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے جس کو زیادہ عرصے تک نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا خطے کے امن اور سیکیورٹی کے لیے اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو روکنے کے لیے پاکستان ہر فورم تک جائے گا تاکہ اس مسئلے کو کشمیری عوام کی توقعات اور امنگوں کے مطابق حل کیا جا سکے اور پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

وزیر خارجہ کا او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف بن احمد سے پیر کو ٹیلی فون پر رابطہ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری مسلسل کرفیو اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو نماز عید اور نماز جمعہ تک ادا نہیں کرنے دی گئی اور ذرائع مواصلات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے تاکہ حقائق دنیا کے سامنے نہ آ سکیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ راہول گاندھی کی قیادت میں بھارتی حزب اختلاف کا وفد صورت حال جاننے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر پہنچا لیکن انہیں بھی سری نگر ایئرپورٹ سے واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمان او آئی سی کی طرف نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ او آئی سی مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویش ناک صورت حال پر اپنا موثر کردار ادا کرے گا۔

اس موقع پر انہوں نے تجویز پیش کی کہ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ او آئی سی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت دے۔

او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے اس ساری صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی نے اس سلسلے میں پہلے بھی او آئی سی کنٹکٹ گروپ کا اجلاس طلب کیا تھا اور اب بھی ہم اس ساری صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے اس سلسلے میں مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

ترک وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک گفتگو

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی کے وزیرِ خارجہ میولود چاوش اوغلو سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے مابین دیرینہ تاریخی، ثقافتی اور برادرانہ تعلقات ہیں، ترکی نے ہمیشہ اہم امور پر پاکستان کے نقطہ نظر کی حمایت کی اور پاکستان نے بھی ہر مشکل گھڑی میں ترکی کا ساتھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے گولن تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا اور ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی گئیں جبکہ مسلم امہ کو متحد کرنے کے لیے ترکی کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر ہم ترک صدر رجب طیب اردوان کے بے حد شکر گزار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ جنوری 1948 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے اور اس تنازع کے ضمن میں سیکیورٹی کونسل کی 11 قراردادیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے 5 اگست کے یک طرفہ اقدام سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے اور اب آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے مسلمان پچھلے 22روز سے کرفیو کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں اور ترکی سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری کرفیو کے خاتمے اور نہتے کشمیریوں کو بھارتی استبداد سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

ترک وزیرِ خارجہ میولود چاوش نے کہا کہ ترکی اس ساری صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اس ساری صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

دونوں وزرائے خارجہ نے دو طرفہ مشاورت جاری رکھنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اگلے ماہ منعقد ہونے والے اجلاس بالخصوص او آئی سی رابطہ گروپ برائے کشمیر میں ملاقات پر اتفاق کیا۔